ایک نیوز نیوز: سپریم کورٹ میں محکمہ پولیس پنجاب میں سیاسی مداخلت اور ٹرانسفر و پوسٹنگ کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔
تفصیلات کے مطابق درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ پولیس افسران کے تبادلے سیاسی مداخلت اور اثر ورسوخ سے ہوتے ہیں، حالیہ دنوں میں خاتون ڈی پی او لیہ کا تبادلہ بھی سیاسی مداخلت پر ہوا، یہ تبادلہ مقامی سیاست دان کی مداخلت پر ایوان وزیراعلی سے ہوا، پولیس نے مزاحمت کی لیکن بالآخر خاتون ڈی پی او لیہ نے چارج چھوڑ دیا، پنجاب میں آئی جی پولیس کی اوسط مدت 6 ماہ ہے جو قانون کے مطابق تین سال ہونی چاہیے، چار سال میں پنجاب میں پولیس افسران کو کسی وجہ کے بغیر تبدیل کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسران کے بلاوجہ تبادلوں سے کمانڈ و فوجداری نظام انصاف کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے، ان حالات میں افسران میں سیاسی اثرو رسوخ سے اعلی عہدے حاصل کرنے کا رجحان بڑھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیٹا کے مطابق پنجاب میں ڈی پی او کی اوسط ٹرم پانچ ماہ ہے، چار سالوں میں پنجاب میں 268 ڈی پی اوز کے تبادلے ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کے سابق آئی جی بڑے پڑھے لکھے اور شائستہ افسر تھے، سندھ ہاؤس پر حملے کے معاملے کو بڑے اچھے انداز میں ڈیل کیا، وہ بھی تبدیل ہوگئے۔
سپریم کورٹ نے سیاسی مداخلت و پولیس افسران کے تبادلے پر پنجاب حکومت سے جواب طلب کر لیا۔
سپریم کورٹ نے مقدمہ کا دائرہ وفاق اور دیگر صوبوں تک بھی وسیع کرتے ہوئے وفاق اور باقی صوبوں سے بھی دو ہفتوں میں پولیس میں ٹرانسفر و پوسٹنگ پر جواب اور گزشتہ 8 سال کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ عدالت نے سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کردی۔