ایک نیوز:چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو انسداد دہشتگردی عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا۔ جہاں ان کی 8 مقدمات میں عبوری ضمانت میں 8 جون تک توسیع کردی گئی ہے۔
دریں اثناء عدالت کی جانب سے عمران خان کیخلاف مقدمات کی سماعت میں وقفہ کردیا گیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کیخلاف درج 7 مقدمات کی اے ٹی سی میں سماعت ہوئی، عمران خان کے جونیئر وکیل علی اعجاز عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل نے کہاکہ عمران خان کچھ دیر میں عدالت پیش ہو جائیں گے ،جج راجہ جواد عباس حسن نے کہاکہ آج تمام ضمانتوں پر دلائل دیئے جائیں۔
سرکاری وکیل نے کہاکہ عمران خان کسی بھی کیس میں شامل تفتیش نہیں ہوئے ،جج اے ٹی سی نے کہاکہ عمران خان پیش ہوتے ہیں تو دیکھتے ہیں،عدالت نے عمران خان کے آنے تک سماعت میں وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعدعمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم ہے کہ عمران کان شامل تفتیش ہو۔ کوئی اناء کا مسئلہ نہیں ہے۔ بس اتنا چاہتے ہیں کہ جیسے لاہور ہائیکورٹ نے عدالت میں ہی شامل تفتیش کروایا۔ یہاں بھی عدالت میں ہی شامل تفتیش کروالیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تفتیشی افسران کیلئے دستخط شدہ بیانات آگئے ہیں۔ اگر ان کے مزید بھی سوال ہیں تو ہم ان سے تعاون کریں گے۔ جج نے ریمارکس دیے کہ آپ تو ایک کیس میں شامل تفتیش ہو چکے اسی پر دلائل دے دیں۔ سلمان صفدر نے کہا کہ میں ایک ساتھ ہی دلائل دینا چاہتا ہوں۔ آج ہم نے نیب کے دفتر بھی جانا ہے،8 جون تک دیگر کیسز میں بھی ضمانتوں پر ہیں۔ ہم پر الزام ہے عمران خان نے اکسایا ہے۔
پراسیکیورٹر نے کہا کہ چار مقدمات میں جے آئی ٹی بنی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی حکم نامہ پیش کیا۔ 27 مارچ کو ایک ہی حکم نامہ ہوا۔ نوٹسز ہوتے رہے چھ اپریل،اٹھارہ اپریل کو پیش ہوں یہ پیش نہیں ہوئے۔ تین مئی کو کہا اگلی تاریخ میں لازمی پیش ہوں لیکن پھر بھی شامل تفتیش نہیں ہوئے۔
جج نے اپنے ریمارکس میں کہ اکہ آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کو ڈائریکشن ہوئی ہے کہ آپ نے عمران خان کے پاس جانا تھا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سوالنامہ ان کو دیا ہے؟ پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ چار مقدمات میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنی لیکن یہ ان میں پیش نہیں ہوئے۔ پھر کہا گیا ٹانگ خراب ہے یہ پیش نہیں ہو سکتے۔ عدالت سے استدعا ہے کہ ڈائریکشن دیں ملزم مقدمات میں شامل تفتیش ہو۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ میں بیانات لیے پھر رہا ہوں لیکن ان کو کوئی لینا نہیں چاہتا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ پنجاب کے جو مقدمات تھے ان میں جے آئی ٹی نے کیسے کام کیا؟ جے آئی ٹی بنائی گئی اور پوری جے آئی ٹی زمان پارک میں آئی اور شامل تفتیش کیا گیا۔
عمران خان نے جج کے شامل تفتیش کے استفسار پر اٹھ کر وکیل کے ساتھ سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ مجھے سیکیورٹی تھریٹس تھے کیسے شامل تفتیش ہوتا؟ عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ جب عمران خان پولیس لائنز حراست میں تھے تو اس وقت شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ عمران خان اس وقت نیب کی حراست میں تھے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پھر نیب کیس لاء بتا دوں ایک دفعہ حراست میں ملزم ہو تو شامل تفتیش کیا جائے۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ سیکورٹی کی بات ہے تو آج بھی اسلام آباد پولیس ہی ان کو سیکیورٹی دے رہی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ کسٹڈی از کسٹڈی، یہ کیا بات ہوئی؟ آپ میرے پاس نہیں آسکتے تھے کہ اجازت دیں ہم نے بیان لینے جانا ہے؟ آپ ایسا نہ کریں، میں پھر کیس لاء کی طرف آجاؤں گا۔ پشاور میں عدالت نے حکم نامہ دیا ہوا ہے کہ کسٹڈی کسٹڈی ہوتی ہے۔
اس کے بعد عمران خان روسٹرم پر آگئے۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ایک قاتلانہ حملہ ہوا دوسرا ہوا وزیر داخلہ کا بیان آیا میری جان کو شدید خطرہ ہے۔ گھر سے باہر نکلتا ہوں تو میں اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر نکلتا ہوں۔وزیر داخلہ میرا مخالف ہے وہ کہہ رہا ہے جان کو خطرہ ہے مجھے بھی معلوم ہوا جان کو خطرہ ہے۔
عمران خان نے اپنے بیان میں کہا کہ میں شامل تفتیش ہونا چاہتا ہوں۔ میرے گھر آجائیں اور میں شامل تفتیش ہو جاوں گا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست آگئی ہے میں اس پر حکم نامہ جاری کروں گا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی موجود ہے؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی موجود نہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ تو ان کی سنجیدگی کا حال ہے۔ اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو یہاں موجود ہوتے۔ جے آئی ٹی کا کوئی بندہ یہاں ہونا چاہیے تھا۔ عدالت نے آدھے گھنٹے میں جے آئی ٹی کو طلب کرلیا۔ جے آئی ٹی آئے اور بتائے کہ وہ کیسے ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں۔
عمران خان کی دہشتگردی کے آٹھ مقدمات میں ضمانت میں 8 جون تک توسیع کردی گئی۔