ایک نیوز: ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کے مزید 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی اور جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد کی جانب سے عمران خان کے فوکل پرسن حسان خان نیازی کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا ہے۔ ڈیوٹی مجسٹریٹ مریدعباس نے دو صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درج مقدمے کے مطابق حسان خان نیازی نے کارِسرکار میں مداخلت کی۔ پولیس کو دھمکیاں دیں اور بیریئرز توڑے۔ درج مقدمے کے مطابق شریکِ ملزم جائے وقوعہ سے بھاگ گیا۔ حسان خان نیازی وقوعہ کے وقت اسلحہ سے لیس نہیں تھا۔ گزشتہ تین دنوں سے پولیس کی حراست میں تھالیکن کوئی برآمدگی نہ کی گئی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے اختیارات کو جسمانی ریمانڈ میں توسیع کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اندھادھند جسمانی ریمانڈ منظور نہیں کیا جاسکتا، جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے۔حسان خان نیازی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا جاتاہے، 6اپریل کو عدالت پیش کیاجائے۔
قبل ازیں سابق وزیراعظم عمران خان کے فوکل پرسن حسان نیازی کو جوڈیشل مجسٹریٹ مرید عباس کی عدالت پیش کیا گیا تھا جہاں ان کے وکیل فیصل چوہدری بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انویسٹی گیشن افسر نے موقف اختیار کیا کہ ساتھی ملزم کا پتہ چل گیا، اسلحہ اور گاڑی برآمد کرنے ہیں۔وکیل فیصل چودھری کی جانب سے ایف آئی آر کاپی پڑھ کر سنائی گئی۔
حسان نیازی کے وکیل فیصل چودھری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئی او نے بتایا کہ دوسرے شخص کی شناخت کر لیا ہے،ایک چیز جب ان کے قبضے میں نہیں ہے تو بندے کو قبضے میں رکھنا کیسے ممکن ہے،72 گھنٹوں میں پولیس یہ نہیں معلوم کر سکی گاڑی کون سی تھی اور کس کے نام پر تھی،ملزم پیشے سے وکیل ہیں اور اس دن تین کیسز میں ضمانت لی،میں ان کے گزرنے سے ایک منٹ پہلے گزرا ہوں اور وہاں کوئی بیرئر تھا،صرف سیاسی بنیادوں پر کیسز کئیے جارہے ہیں، حسان نیازی کا گناہ یہ ہے کہ عمران خان کے بھانجے ہیں،مقدمے میں وقوع کا وقت جھوٹا ہے،ایک وکیل کو تین دن زہر حراست رکھ کر یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ہم گرفتار کریں گے اور ماریں گے،وکیل فیصل چودھری نے صدیق جان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کا پرچہ صدیق جان پر تھا ایک دن کا ریمانڈ پولیس کو دیا کچھ نہ نکلا تو عدالت نے ڈسچارج کر دیا،پولیس کے ہاتھوں ایک وکیل کی تزلیل کی جارہی ہے،یہ وکلا کا کاز ہے اس کو بہتر اینگل سے دیکھا جائے۔
حسان نیازی کے دوسرے وکیل علی بخاری کےدلائل :
وکیل علی بخاری کی جانب سے حسان نیازی کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کرتےہوئے کہا گیا کہ پولیس رپٹ میں لکھا ہے کہ 11 بجے اٹھایا گیا اور 4 بجے شام کو گرفتاری ڈالی گئی،وکیل علی بخاری کی جانب سے مختلف کیسز کا حوالہ دیا گیا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ گرفتاری ہی غیر قانونی ہے، حسان نیازی کے بعد بہت سے لوگ اندر بیٹھ گئے کہ گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
صدر اسلام آباد بار قیصر امام کے دلائل :
وکیل قیصر امام نے کہا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا جو اب ہو رہا ہے،جو وکلا اپنے کلائنٹ کو ریپرزنٹ کر رہے ہیں اب ان پر مقدمے ہو رہے ہیں،مارشل دیکھا اور برے حالات دیکھے لیکن ایسا نہیں دیکھا،جب مقدمہ درج ہو جائے تو پہلے ضمانت قبل از گرفتاری آتی ہے،وکیل قیصر امام کی جانب سے مختلف کیسز کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ پولیس جب ریمانڈ کی استدعا کرتی ہے ہم اس سٹیج سے بھی گزر چکے ہیں،دو بڑے وکلا کو موقع پر موجود تھے وہ یہ کہ رہے ہیں کہ ایسا ہوا ہی نہیں،ایف آئی آر میں 2دفع کے علاؤہ تمام قابل ضمانت ہے،یہ سمجھ نہیں آئی کہ دوسرا بند پسٹل لہراتے ہوئے بھاگ گیا یہ کیسی دوستی ہے،پسٹل پاس موجود ہے اور یہ بندہ مارنے کے لئیے گاڑی اوپر چڑھا رہا ہے،بار کا صدر ہونے کے ناتے میں شرمندہ ہوں۔
پولیس نے حسان نیازی کے مزید 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کر دی۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بعد ازاں محفوٖظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے حسان نیازی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔