ایک نیوز: عمران خان کے توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سماعت کرتے ہوئے عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس ابھی احتساب عدالت آیا بھی نہیں تھا اور آپ نے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن بھی کردیا۔
بانی پی ٹی آئی کی توشہ خانہ اور 190 ملین پائونڈ کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف درخواست پر ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سماعت کی۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین عدالت میں پیش ہوئے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل منور اقبال دگل اور نیب اسپیشل پراسیکیوٹر امجد پرویز ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
شعیب شاہین نے دلائل میں کہا کہ اسی نوعیت کے ایک کیس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے فیصلہ دے رکھا ہے، مناسب ہو گا کہ یہ کیس بھی اُسی عدالت میں منتقل کر دیا جائے، ہماری استدعا ہے کہ دونوں مقدمات کے ٹرائل پر حکمِ امتناعی جاری کر دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جیل ٹرائل ان کیمرا ٹرائل نہیں ہوتا، صرف وہ پیرامیٹرز دیکھنے ہیں کہ جیل ٹرائل کے طریقہ کار کو فالو کیا گیا یا نہیں؟ یہ نیب کیس ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ کیا نیب لا میں کچھ الگ ہے؟ اٹارنی جنرل کو آنے دیں، ہم اس کو دیکھ لیتے ہیں۔
وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 31 جنوری تک جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب رخصت پر ہیں۔ شعیب شاہین نے کہا کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب دستیاب ہونگے تو یہ کیس ان کے سامنے سماعت کیلئے رکھ دیا جائے۔
اٹارنے جنرل نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ کیس پرانے کیس سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ میری رائے کے مطابق دو رکنی بنچ کا پہلا فیصلہ اس پر لاگو نہیں ہوتا۔
شعیب شاہین نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم جائیں گے اور وہ پرانا فیصلہ لاگو کرکے آرڈر پاس کردیں گے۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ اسی نوعیت کا کیس ہے وہی جج انٹرپرٹیشن کریں تو بہتر ہوگا۔ ایک ہفتے کی بات ہے ،وہ بنچ دستیاب ہوجائے گا تو کیس ان کے سامنے مقرر کردیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب کے وکلا اور میں بھی موجود ہوں ،کارروائی آگے بڑھائی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں ریفرنس کب فائل ہوا تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ دسمبر 2023 میں ریفرنسز فائل ہوئے تھے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی ریفرنس احتساب عدالت آیا ہی نہیں اور آپ نے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
شعیب شاہین نے دلائل میں کہا کہ نوٹیفکیشن پہلے اور ریفرنس بعد میں آتا ہے، اس پر تو
ریفرنس ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریفرنس سے پہلے عمران خان کے خلاف انکوائری چل رہی تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کوئی جوڈیشل آرڈر پاس نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی ریفرنس دائر تھا تو جیل ٹرائل کیسے؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے تمام کیسز سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ کیا یہ اوپن کورٹ ٹرائل ہے؟ شعیب شاہین نے کہا کہ جیل میں کوئی اوپن ٹرائل نہیں ہورہا۔ جس سیکشن 16 بی کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں جیل ٹرائل کا نہیں بیٹھنے کا ذکر ہے۔ ٹرائل ہر حال میں اوپن ٹرائل ہوگا۔
عدالت نے شعیب شاہین نے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل میں جو ٹرائل ہورہا ہے اس میں کیا غیر قانونی ہے وہ بتائیں؟ شعیب شاہین نے کہا کہ کورٹ نے کہا بیٹھنا ہے کہاں کیس سننا ہے، یہ اختیار کورٹ کا ہے ان کا نہیں۔ قانون میں واضح ہے کہ ٹرائل میں ہر کسی کو بیٹھنے کی اجازت ہے۔ ٹرائل سے متعلق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہائی کورٹ کو لکھیں گی۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ کورٹ نے سیٹنگز کےلئے جیل ٹرائل شروع کردیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ احتساب عدالت اڈیالہ جیل بیٹھی گی۔ وفاقی حکومت کے پاس اختیارات تھے تو انہوں نے اس کا استعمال کردیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یہ اختیارات صرف احتساب عدالت کے لیے یا کسی بھی نارمل کورٹ کے ہوں گے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت کا صوابدید ہے کہ وہ کسی بھی نارمل کورٹ کی سیٹنگ طے کرلیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ کے پاس سیٹنگز کے اختیارات ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ کہاں بیٹھنا چاہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا اوپن ٹرائل یا ان کیمرہ ٹرائل کا اختیار بھی ٹرائل کورٹ کے پاس ہے ؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کیمرہ ٹرائل کے لیے جوڈیشل آرڈر جبکہ جگہ کی تبدیلی کیلئے وفاقی حکومت کی منظوری لازمی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر پنجاب کی کوئی عدالت ہو تو کیا وہ صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت کو درخواست کریگی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بہت اہم سوال ہے مگر آئین اور رولز میں وفاقی حکومت کا ذکر ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ جو بھی ہوگا صرف اور صرف سیکشن تھری 52 کے تحت ہوگا۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔