ایک نیوز: سندھ ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو میں ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے کہا ہے کہ قتل میں ملوث تمام افراد کو نوازا گیا۔ ہم 40 سال سے منتظر ہیں۔ ہمیں انصاف دیا جائے۔
سندھ ہائیکورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا آج یہاں آنے کا مقصد انصاف کا حصول تھا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں جو اس کیس میں نامزد تھے وہ ہی اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں۔ جو لوگ اس میں ملوث تھے انہیں تحائف اور ترقیاں دی گئیں جو اس بات کی نشاندھی ہے کہ انہوں نے کام انجام دیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ میرے دادا کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے باوجود ہم اپنے عدالتی نظام سے انصاف کی امید رکھتے ہیں۔ ہم ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں بھی فریق بننے جارہے ہیں۔
دریں اثناء سندھ ہائیکورٹ میں بینظیر بھٹو شہید کے بھائی مرتضی بھٹو کے قتل کیس میں ملزمان کی بریت کے خلاف اپیلوں کی سماعت ہوئی۔ سابق پولیس افسران شعیب سڈل، رائے طاہر سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔
فریقین کی جانب سے اپیلوں کی سماعت الیکشن کے بعد کرنے کی استدعا کی گئی۔ عدالت کی جانب سے فریقین کی درخواست پر سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر تمام ملزمان کو اپنی حاضری یقینی بنانے کا حکم دیدیا۔
وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سابق پولیس افسر شاہد حیات، زیشن کاظمی، شبیر احمد قائم خانی، مسلم شاہ اور کچھ ملزمان کا انتقال ہوچکا ہے۔ آغاجمیل، غلام مصطفیٰ، احمد خان، راجہ حمید، گلزار خان، غلام شبیر، ظفراقبال، فیصل حمید بھی ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں۔
میر مرتضی بھٹو کے ملازم نورمحمد گوگا نے ملزمان کی بریت کے خلاف 2010 میں اپیل دائر کی تھی۔ اپیل میں کہا گیا کہ 20 ستمبر 1996 کو میر مرتضی بھٹو اور انکے ساتھیوں کو گھر کے قریب گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعہ کے بعد سرکار اور مرتضی بھٹو کی ملازم نور محمد کی مدعیت میں دو مقدمات درج کئے گئے تھے۔ دسمبر 2009 میں ماتحت عدالت نے 20 پولیس افسران کو بری کردیا تھا۔
اسی عدالت نے مرتضی بھٹو اور انکے ساتھیوں کو بھی مقدمے سے بری کیا تھا۔