ایک نیوز : چیف جسٹس عمر عطا بندیال کیطرف سے ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کی نا اہلی پر ٗ سٹے آرڈر جاری ہونے کے بعد چار سال تک یہ کیس کیسے لٹکایا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے قاسم سوری، رجسٹرار سپریم کورٹ اور مخالف امیدوار کو طلب کر لیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے قاسم سوری کے وکیل ایڈوکیٹ نعیم بخاری سے مخاطب ہوکر ریمارکس دئیے ہیں کہ بظاہر سٹے آرڈر کی وجہ سے قاسم سوری کو تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے جیسے غیر آئینی اقدام کاُموقعہ ملا اور سپریم کورٹ کو سیاسی مقاصد کے لئیے استعمال کیا گیا، کیوں نہ آپکے موکل کیخلاف آرٹیکل چھ کے تحت آئین سے سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔
کیس کے دوران دلائل دیتے ہوئے قاسم سوری کے وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی مدت مکمل ہوچکی اپیل اب غیرموثر ہے جبکہ قاسم سوری نے 22 اپریل کو استعفی دے دیا تھا ۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ‘‘حکم امتناع لیکر مزے کرتے رہے، پھر مستعفی ہوکر کہہ دیا اپیل غیرموثر ہوگئی‘‘۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ استعمال ہوٸی تو اسے ٹھیک کرنا ہوگا، یہ صرف ہمارا ادارہ نہیں سب کا ادارہ ہے، اس کی تباہی صرف ہماری نہیں سب کی تباہی ہے۔
مخالف فریق لشکری رئیسانی کے وکیل کا موقف تھا کہ ٹربیونل نے قاسم سوری سے مراعات واپس لینے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قاسم سوری ملک میں آئینی بحران کی وجہ بنے، قاسم سوری پر کیوں نہ آئین شکنی کی کارروائی کا حکم دیا جائے، حکم امتناع لینے کے بعد مقدمہ سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں کرنے دیا گیا، سپریم کورٹ کے اندرونی سسٹم کے ساتھ ہیراپھیری کی گئی۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ قاسم سوری کا مقدمہ دیگر کیسز کے ساتھ عدالت نے یکجا کر دیا تھا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کونسا مقدمہ لگنا ہے کونسا نہیں، سپریم کورٹ میں پہنچنے والے لمبے ہاتھ ختم کر رہے ہیں، مقدمات کیسے یکجا کرائے جاتے ہیں معلوم ہے، 1982 سے وکیل ہوں۔
جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ میں 1972 سے ہائی کورٹ کا وکیل ہوں کبھی کوئی مقدمہ فکس نہیں کرایا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمہ کیسے یکجا ہوا اور اتنا عرصہ مقرر کیوں نہ ہوا اپنی انکوائری بھی کریں گے۔
وکیل لشکری رئیسانی، ریاض احمد نے کہا کہ قاسم سوری غیر قانونی طور پر عہدے پر براجمان رہے، قاسم سوری نے اسٹے پر عہدہ انجوائے کیا اور ان سے مراعات اور فوائد واپس ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا آپ اس بات سے متفق ہیں؟ اگر آپ اتفاق کرتے ہیں تو بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا۔
جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل نے کہا تھا کہ قاسم سوری نے کوئی کرپٹ پریکٹس نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ نے آپ کے این اے 265 میں انتخابات دوبارہ کرانے کا کہا۔
جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میں نے تو استعفا دے دیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا تو پھر آپ نے اپیل کیوں دائر کی؟ قاسم سوری تو 27 دسمبر 2019 سے منتخب رکن اسمبلی تھے ہی نہیں۔
نعیم بخاری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2019 میں بلوچستان کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے کیسے کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ معطل کیا؟ آپ نے سپریم کورٹ سے اسٹے مانگا تو دیا گیا ہے، اگر سپریم کورٹ استعمال ہو رہی تھی تو ہم اس غلطی کی تصحیح کرنا جانتے ہیں، اگر کچھ غلط ہوا تھا تو 2018 کا پورا الیکشن نکال کر دیکھیں گے، یہ نہیں ہو سکتا کہ عہدہ انجوائے کیا اور چلے گئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ قاسم سوری نے استعفا کب دیا؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ قاسم سوری نے 16 اپریل 2022 کو استعفا دیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ جب آپ نے اسمبلی توڑی تب بھی اسٹے پر تھے نا؟