اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا

 اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا

ایک نیوز نیوز: اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا وفاقی حکومت  کی یونین کونسلز بڑھانے کا نوٹیفکیشن مسترد کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ  نے الیکشن کمیشن کو فریقین کا موقف دوبارہ سن کر فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔  چیف جسٹس عامر فاروق اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ جاری کرتے ہوئے  ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن 27 دسمبر کو فریقین کو حق سماعت دے۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتراوصاف، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیرجدون، عادل عزیزقاضی ایڈووکیٹ، ڈی جی لیگل الیکشن کمیشن،انعام امین منہاس ایڈووکیٹ اور دیگر کے علاوہ پی ٹی آئی رہنماء علی نواز اعوان،جماعت اسلامی کے رہنماء میاں محمد اسلم اور دیگر عدالت پیش ہوئے۔

پی ٹی آئی وکیل نے کہاکہ  بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت ہے،ایڈووکیٹ جنرل کی طرف سے ہمیں فریق ہی نہیں بنایا گیا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ یہ عدالتی کارروائی ہے، یہاں تقریر نہیں کرنی۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے کہاکہ وزارت داخلہ نے 19 دسمبر کو یونین کونسلز بڑھانے کا نوٹیفکیشن کیا، الیکشن کمیشن نے سو موٹو پاور استعمال کرتے ہوئے اس نوٹی فکیشن کو مسترد کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت اور میٹروپولیٹن کارپوریشن سمیت کسی کو نوٹس کر کے سنا بھی نہیں، عوام سے تجاویز اور اعتراضات طلب کیے بغیر یونین کونسلز میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کا معاملہ اس سے الگ ہے، پورے اسلام آباد کو 125 یونین کونسلز میں تقسیم کیا گیا،حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اسلام آباد کے سرکل کا سائز تو مقرر ہے، یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے سے ہر یونین کونسل کا سائز کم ہو گا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ حلقہ بندیاں آبادی کے حساب سے کی جائیں گی جو الیکشن کمیشن نے کرنی ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ یونین کونسلز کی تعداد میں اضافہ سے لوکل ایریا ڈسٹرب نہیں ہو گا؟، جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہاکہ کوئی ایریا ڈسٹرب نہیں ہو گا۔

اس موقع پر درخواستگزار وکیل عادل عزیزقاضی نے کہاکہ لوکل ایریا سے مراد پوری میٹروپولیٹن کارپوریشن ہے جس میں تمام یونین کونسلز آتی ہیں،حکومت کے پاس تو یہ بھی اختیار ہے کہ دو میٹروپولیٹن کارپوریشنز بنا دے،اگر حکومت کوئی سیکٹر میٹروپولیٹن کارپوریشن سے الگ کرنا چاہے تو اس میں یونین کونسل بھی نہیں آئے گی۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہاکہ آپ ایک مرتبہ ہے طے کر لیں کہ یونین کونسلز کی تعداد کتنی بڑھانی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ جس طرح لندن میں مئیر کا الیکشن ڈائریکٹ ہوتا ہے اسلام آباد میں بھی وہی ہو گا،اس سے قبل مئیر کو چیئرمین یونین کونسلز منتخب کرتے تھے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ یونین کونسلز کی تعداد میں اضافہ کے بعد الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کرنے کی پابند ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ حلقہ بندیاں تبدیل ہونے کے بعد ووٹرز لسٹوں میں بھی تبدیلی ہو گی؟،جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی بالکل، ووٹرز لسٹوں میں بھی تبدیلی ہو گی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کر کے یونین کونسلز کی تعداد 125 کر دی گئی ہے،اگر آئندہ یونین کونسلز کی تعداد میں اضافہ یا کمی کرنی ہوئی تو نوٹی فکیشن سے ایسا ممکن ہو گا،قومی اسمبلی سے بل پاس ہو گیا، سینیٹ سے پاس ہو گا،میئر اور ڈپٹی میئر کا الیکشن بھی اب براہ راست ہو گا،سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن کو نہ مانے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن کا یہ کہنا ہے کہ الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد حلقہ بندیوں میں تبدیلی ہوئی،الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ آئندہ الیکشن بڑھائی گئی یونین کونسلز پر ہو جائیں گے اور ابھی پرانے شیڈول کے مطابق۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایک معاملہ ووٹر لسٹوں میں درستگی کا بھی ہے،جب یونین کونسلز کی تعداد 101 ہوئی تو کیا ووٹر لسٹوں میں تبدیلی کا پراسیس کیا گیا؟ اس موقع پر ڈی جی لیگل الیکشن کمیشن نے کہاکہ جی بالکل، پراسیس کیا گیا تھا، چیف جسٹس نے کہاکہ اس متعلق کوئی ڈاکومنٹ ہے تو وہ بھی دکھائیں۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن نے ووٹرز لسٹوں میں تبدیلی کا ریکارڈ عدالت میں پیش کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ووٹرز نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پراسیس کے دوران اپنا ووٹ درست نہیں کرایا؟۔کیا آپ ووٹوں کی درستگی کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس گئے؟۔ انعام امین منہاس ایڈووکیٹ نے کہاکہ روات کے ووٹرز گولڑہ میں اور گولڑہ کے ووٹرز روات میں شامل ہیں۔ووٹرز الیکشن کمیشن کے پاس گئے تو انہوں نے کہا الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد تبدیلی نہیں ہو سکتی۔

ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہاکہ یہ ووٹوں کی درستگی کے لیے پراسیس کے دوران نہیں آئے اور جب آئے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ وکیل نے کہاکہ اگر ووٹرز کو ان کے حق سے محروم رکھا جائے تو پھر لوکل گورنمنٹ الیکشن کرانے کا مقصد ہی نہیں،اتنی بڑی غلطیوں کے ساتھ الیکشن کرائے گئے تو وہ فری اینڈ فیئر نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اقتدار میں کوئی بھی سیاسی جماعت ہو، بلدیاتی انتخابات کرانے میں ان کی دلچسپی نہیں، پولیٹیکل اینالسٹ بہتر بتا سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟، اگر 2020 میں مدت پوری ہوئی تو اس وقت الیکشن ہو جانا چاہیے تھا،کبھی کورونا، کبھی سیلاب، کبھی سردی، کبھی گرمی، یہ سب تو چلتا رہتا ہے،اسلام آباد کے مسائل تب حل ہوں گے جب یہاں دہلی ماڈل کی اپنی پارلیمنٹ لائیں گے۔

ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہاکہ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ انتخابی شیڈول کے بعد یونین کونسلز کی تعداد بڑھائی گئی،31دسمبر کو بلدیاتی انتخابات پرانے شیڈول کے مطابق ہونے چاہئیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن خود مختار آئینی ادارہ اور ریگولیٹری باڈی ہے جسے ہدایات نہیں دے سکتے۔ وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔اور بعد ازاں جاری اپنے مختصر فیصلہ میں عدالت نےیونین کونسلز بڑھانے کا حکومتی فیصلہ مسترد کرنے کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام فریقین کو سن کر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دےدیا۔

عدالت نے بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو کرانے کا معاملہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیااور ہدایت کی ہے کہ الیکشن کمیشن یونین کونسلز کی تعداد میں اضافہ سے متعلق 27 دسمبر کو فریقین کو سنے جبکہ 28 دسمبر کو ووٹرلسٹوں سے متعلق شکایات پر فریقین کو سنے اور اس کے بعد فیصلہ کرے، عدالت نے یہ ہدایت بھی کی کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی قانون سے متعلق سیکشن4 اور سیکشن6 کی تشریح بھی کرے۔