ایک نیوز : سیاح سکاٹش شہری کرسٹوفر کو دوستوں نے پاکستان میں حالات سے آگاہ کرتے ہوئے پشاور نہ جانے کا مشورہ دیا۔ مگر کرسٹوفر رواں برس پشاور کی سیاحت کا عزم کر چکی تھیں۔
سیاح سکاٹش شہری کرسٹوف نے دوستوں اور عزیزوں کی جانب سے خبردار کیے جانے کے باوجود خطرے کی پرواہ نہیں کی اور سیاحت کے لیے پشاور روانہ ہو گئیں۔ پشاور آ کر کرسٹوفر کا اندازہ قطعی طور پر درست ثابت ہوا کہ یہ شہر اس پشاور سے مختلف تھا جو مغربی میڈیا میں دکھایا جا رہا تھا۔
کرسٹور پہلی بار پشاور آئی ہیں اور قصہ خوانی کے بازاروں میں اکیلی گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں مگر انہوں نے رَتی برابر بھی خوف محسوس نہیں کیا بلکہ مقامی لوگوں نے ان کو خوش آمدید کہا اور کچھ دکانداروں نے تو مہمان نوازی کے طور پر کھانوں کے پیسے بھی وصول نہیں کیے۔ مگر حکومت کی جانب سے غیرملکی سیاحوں کے لیے این او سی کے حصول کا معاملہ اب بھی حل طلب ہے جس کے باعث سیاحتی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
پشاور یورپ سمیت ہر خطے کے سیاحوں کا پسندیدہ مقام بن چکا ہے اور حالات بہتر ہونے کے بعد اب بڑی تعداد میں غیرملکی سیاح پشاور کا رُخ کر رہے ہیں۔
پشاور چوں کہ ایک قدیم شہر ہے چنانچہ یہاں بہت سے تاریخی مقامات بھی موجود ہیں جن میں سیاح گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ غیرملکی سیاح اندرون شہر کی قدیم گلیوں، سیٹھی ہاؤس، گور گھٹری، قلعہ بالا حصار، اسلامیہ کالج اور عجائب گھر کا رُخ کرنا تو کسی طور نہیں بھولتے۔
مقامی ٹور گائیڈ جلیل احمد کے مطابق زیادہ تر سیاحوں کو پشاور کی پرانی گلیوں میں کشش محسوس ہوتی ہے اور وہ سارا دن اندرون شہر کی گلیوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے پورے شہر کی سیاحت کر لیتے ہیں۔ ’یورپی سیاح اندرونِ شہر جانا نہیں بھولتے اور یہاں کی گلیوں اور تاریخی مقامات کی تصاویر اتارتے، گھومتے پھرتے اور موج مستی کرتے ہیں۔‘
مقامی ٹور گائیڈ جلیل احمد کے مطابق غیرملکی سیاحوں کو پشاور کے کھابے بہت پسند ہیں اور وہ بالخصوص نمک منڈی کی گوشت کڑاہی کے دلدادہ ہیں۔ برطانیہ، جرمنی ، فرانس ، امریکا اور جاپانی شہری روایتی شنواری کڑاہی کھائے بغیر تو یہاں سے واپسی کا سوچتے بھی نہیں۔ ’پشاور کے ڈرائی فروٹ، نان ، چپلی کباب بھی شوق سے کھائے جاتے ہیں جبکہ قہوہ ان کا پسندیدہ مشروب ہے۔‘