ایک نیوز نیوز: چندی گڑھ یونیورسٹی کے وائرل ویڈیو کے معاملے میں پولیس کو مطلوب چوتھا مشتبہ مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوجی نکلا۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجی کا نام موہت کمار ہے اور وہ پنجاب کے ضلع ہوشیار پور مکیران کا رہنے والا ہے۔ ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پولیس موہت کمار کی بھی تلاش کر رہی تھی۔ پولیس اس کے گھر پہنچی تو معلوم ہوا کہ وہ فوج میں تعینات ہے۔ موہت کی شناخت کے بعد اب آرمی انٹیلی جنس اس سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ آرمی انٹیلی جنس پتہ چلانے کی کوشش کررہی ہے کہ اس معاملے میں موہت کا کیا رول تھا۔ جبکہ پنجاب پولیس اب یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ ملزم لڑکی کا آرمی جوان سے رشتہ کیسے قائم ہوا۔ وہ بار بار لڑکی سے ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کو کیوں کہہ رہا تھا۔ جموں پولیس ملزم موہت سے بھی پوچھ گچھ کر رہی ہے۔
یادرہے جب وارڈن ملزم لڑکی سے ویڈیو کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہا تھا تو لڑکی کو موبائل نمبر 6269275576 سے بار بار کالز آ رہی تھیں جس میں مبینہ طور پر شملہ سے گرفتار ملزم رنکج ورما کی ڈی پی لگی تھی۔ لڑکی اس نمبر پر ملزم سے مسلسل چیٹنگ کر رہی تھی اور وہ لڑکی کو ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کی دھمکی دے رہا تھا۔ جبکہ یہ نمبر موہت کمار کی آئی ڈی پر چل رہا تھا۔
موبائل نمبر 6269275576 پر ہونے والی بات چیت منظر عام پر آگئی ۔
لڑکا: گیلری کھولیں اور تمام اسکرین شاٹ ویڈیو کو ڈلیٹ کریں۔ ٹھیک ہے
لڑکی: تصویر بھی
لڑکا: جو کہا پہلے کرو
لڑکا: کیا آپ نے ویڈیو ڈیلیٹ کر دی؟ اس کی تصویر بھیجیں
لڑکا: وہ جو نہانے گئی تھی، اب کیا کر رہی ہے؟
لڑکی: وہ آ گئی ہے۔
لڑکا: تم نے تصویر کیوں نہیں لی؟
لڑکی: تم نے مجھے مروا دیا تھا۔
لڑکا: اس کی تصویر بھیج رہی ہوں۔
لڑکا: میں نے کیا کہا
لڑکی: جب میں اس لڑکی کی تصویر کھینچ رہی تھی تو ایک لڑکی نے مجھے ایسا کرتے دیکھا اور وہ کسی سے کہہ رہی تھی کہ میں نہاتے ہوئے اس کی تصویر کھینچ رہی تھی۔
لڑکا: میں نے کیا بولا
دوسری طرف ویڈیو لیک معاملے میں، مشتبہ رنکج ورما کے بھائی نے دعویٰ کیا تھا کہ رنکج مشتبہ لڑکی سنی مہتا کو نہیں جانتا اور رنکج کی ڈسپلے تصویر کو ایک نامعلوم نمبر نے ویڈیو شیئر کرنے کے لیے غلط استعمال کیا تھا۔
بھائی نے میڈیا کو ایک بیان میں کہا کہ اس نے 18 ستمبر کو اپنی ڈسپلے پکچر کے ذریعے فون نمبر ٹریس کرنے کے لیے پولیس سے رابطہ کیا تھا۔ الزام لگایا جا رہا ہے کہ رنکج ورما سنی کی طرف سے موصول ہونے والی ویڈیو کو دوسروں کو فارورڈ کرتا تھا۔ پولیس کو تفتیش کرنی چاہیے کہ یہ ویڈیوز کس فون نمبر پر بھیجی گئیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ تصدیق کے بعد فارنسک ڈیٹا سے تفتیش کی جائے گی۔