مصنف کون ہوتے ہیں؟

مصنف کون ہوتے ہیں؟
سوشل میڈیا پہ ویسے بھی کتنی جگہ پہ کچھ ایسی تحریریں' ںاولز میری نظر سے گزرے ہیں. کہ پڑھنا تو دور دیکھنے میں بھی شرم آ رہی ہوتی ہے۔ اور نیچے کمانٹس میں انتہا کی تعریفیں کی جا رہی ہوتی ہیں۔ تو اس میں میرا خیال ہے کہ لکھنے والے کا کوئی قصور نہیں بلکہ پڑھنے والے کا ہے۔ہمارے قارئین نے اپنا معیار اتنا گرا لیا ہے۔ جس سے مصنف ویسا ہی لکھنا شروع ہو گئے ہیں۔ کیونکہ ہمارے قارئین کی ڈیمانڈ ہے ایسی ہو گی ہے۔ کیا ہمارا معیار اتنا گرا پڑا ہے کہ ہم غلط چیزوں کی بہودہ ناولڑ کی دل کھول کے تعریف کرتے ہیں۔ ان کو سراہتے ہیں۔ غلط چیزوں کو پڑھنا بھی بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قلم کی طاقت اگر عطا کی ہے تو ہمیں اس قلم کی زمہ داری بخوبی پوری کرنی ہے۔ اگر آپ اچھا لکھ نہیں سکتے تو خدارا نہ لکھیں۔ نوجوان نسل کی سوچ کو تو نہ بگاڑے۔ معاشرے میں ناسور تو نہ پھیلائیں۔ مصنف معاشرے میں تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔ اپنے قلم سے حق بات لکھ کے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ قارئین کو اندھیروں سے نکال کے روشنی کی کرن مہیا کرتا ہے۔
مصنف کے معنی ہیں" لکھنے والا" تصنیف کرنے والا ہےجو کسی کی تحریر کو بیان نہ کرے۔ بلکہ اپنے نظریات کو قلمبند کرے۔مصنف اس معاشرے کے لیے آفتاب کی مانند ہے۔مصنف ایک ایسا طبقہ ہے جو معاشرے میں برق تجلی کی حثیت رکھتا ہے۔

مصنف کا کردار ہمارے معاشرے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔جیسے اندھیری رات میں مہتاب روشنی کا سیبب بنتا ہے۔بلکل اسی طرح مصنف اپنے خیالات احساسات سے لوگوں کے نظریات کو روشن کرنے کا سیبب بنتا ہے۔ مصنف معاشرے میں بسنے والے افراد کی ذہنی سطح کو تبدیل کرسکتا ہے۔ مصنف معاشرے میں بہت سے مثبت اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے یہ نسلوں کو سنوارنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں قلم کی قسم کھائی ہے۔سب سے پہلے قلم کو تحلیق کیا۔ قلم کی طاقت سے بہت سے لوگوں نے اپنا آپ منوایا ہے۔جنہوں نے قلم اٹھایا جدوجہد کی وہ مصنف بنے۔اور ہزاروں لوگ ان کے لکھے سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ تریخ میں ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔مصنف راہنما ہے یہ اپنے قلم سے لوگوں کے دلوں کو پھیر دیتا ہے۔مصنف کی شخصیت سحر انگیز ہوتی ہے۔ ا یک اچھا مصنف ہمشہ زندہ رہتا ہے لوگوں کے دلوں میں کتابوں میں مصنف اپنی قوم کی ترجمانی کرتا ہے۔مصنف نسیم کی مانند ہوتا ہے جس کا ہر جھونکا اپنے سحر میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ تپتے صحرا میں ابر باراں کا کام کرتا ہے۔ نوجوان نسل کو سیدھے راستے پہ گامزن کرتا ہے۔جیسے زخموں کو مرہم کی ضرورت ہوتی ہے۔ رات کو مہتاب کی ضرورت ہوتی ہے دن میں آفتاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح معاشرے کو ایک اچھے مصنف کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اپنے قلم سے حق لکھے۔مصنف کا ہر لفظ طلسم کی مانند ہوتا ہے۔جو نئی نسل میں شعور جزبہ پیدا کرتا ہے۔ اجالوں کا سندیسہ دیتا ہے۔اپنے حصے کا دیا جلاتا ہے۔اور جب ایک دیا جل جائے تو اس کی روشنی سے ایک کارواں بنتا ہے۔ تو دور حاضر کے مصنفین سے گزارش ہے ۔
خدارا اپنے قلم کی حفاظت کریں۔ اس کو صحیح مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ معاشرے میں ایسا ناسور مت بنیں۔ جو ہماری نسل کو ہماری سوچ کو تباہ کر دے۔اور اگر ایک قاری اچھا پڑھے گا تو ہی اچھا بولے گا اچھا لکھے گا۔

اللہ ہمارے قلم کی طاقت میں برکت ڈالیں۔ اور ہمارے اساتذہ جنہوں نے ہمیں قلم اٹھانے کا درس دیا۔ ان کو زندگی دے۔ ان کے علم میں اصافہ کریں۔ آمین!
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔