ڈولفن و پولیس ریسپانس یونٹ کا پنجاب یونیورسٹی کے قریب ڈاکوؤں سے آمنا سامنا ہوا، تینوں مسلح ڈاکوؤں نے سمن آباد ملت پارک میں یکے بعد دیگرے وارداتیں کیں، ڈولفن سکواڈ اور پی آر یو ڈاکوؤں کا تعاقب کر رہے تھے، پنجاب یونیورسٹی کے قریب ڈاکوؤں نے ٹیم پر فائرنگ کر دیں۔
ڈاکوؤں کی اندھا دھند فائرنگ کی زد میں آکر فاطمہ نامی لڑکی موقع پر جاں بحق ہوگئی۔ ڈولفن اور پی آر یو نے تینوں مسلح ڈاکوؤں کو گرفتار کر لیا۔ مقامی پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی، ڈولفن پولیس نے گرفتار ہونے والے ڈاکو مقامی پولیس کے حوالے کر دیئے۔
واقعے کے عینی شاہد کا کہنا ہے کہ دونوں طرف سے فائرنگ ہو رہی تھی۔ لڑکی کو کس کی گولی لگی اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہو گا۔
پولیس نے دعوی کیا ہے کہ گرفتار ہونے والے ڈاکوؤں کی شناخت کر لی گئی ہے اور ڈاکووں سے سامان بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔ ڈاکوؤں میں حسن، وسیم اور فیصل شامل ہیں۔ ڈاکو حسن اور وسیم باغبانپورہ، فیصل شالیمار کا رہائشی ہے۔ پنجاب فرانزک سائنس کی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں۔
فاطمہ کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانے منتقل کر دی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم ضروری ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کےبعد مزید حقائق سامنے آئیں گے۔
دوسری جانب آئی جی پنجاب انعام غنی نے پنجاب یونیورسٹی کے قریب پولیس مقابلے کا نوٹس لے لیا۔ آئی جی نے ڈی آئی جی آپریشنز کو واقعہ کی تحقیقات اپنی نگرانی میں کروانے کا حکم دے دیا۔ آئی جی پنجاب کا کہنا ہے کہ ڈی آئی جی آپریشنز تحقیقاتی رپورٹ جلد از جلد بھجوائیں۔
وزیراعلیٰ نے بھی پنجاب یونیورسٹی کے قریب ڈاکووں کی فائرنگ سے راہگیر خاتون کے جاں بحق ہونے کا نوٹس لے لیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے انسپکٹر جنرل پولیس سے رپورٹ طلب کر لی۔
عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ واقعے کی جامع تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔ جاں بحق خاتون کے لواحقین کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کریں گے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے فائرنگ سے خاتون کے جاں بحق ہونے کے واقعہ پر اظہار افسوس کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے جاں بحق خاتون کے لواحقین سے دلی ہمدردری و تعزیت کا اظہار بھی کیا۔
اسسٹنٹ کمشنر ذیشان رانجھا کہتے ہیں فاطمہ کی موت حادثاتی طور پر ہوئی ہے، پولیس اہلکاروں نےاس بات کوقبول کیا ہےکہ ایک فائر ہوا ہے۔
فاطمہ کے خالو عمر حیات کا کہنا ہے کہ پولیس نے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، فاطمہ کو ڈاکوؤں کی گولی لگی۔
فاطمہ کی والدہ کہتی ہیں میری بیٹی مجھے ویسے ہی واپس کر دیں، مجھے اپنی بیٹی کا پوسٹ مارٹم نہیں کروانا۔ میری بیٹی کا بچا لیں مجھے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کروانی۔
مقتول فاطمہ کے والد اسلم کا کہنا ہے کہ میری بیٹی کو گردن پر گولی لگی جس سے وہ سڑک پر گر پڑی، میری بیٹی نے میرے ہاتھوں میں دم دے دیا۔