یونان کشتی حادثہ، تارکین وطن کی جانیں کس نے بچائیں؟

یونان کشتی حادثہ، تارکین وطن کی جانیں کس نے بچائیں؟

ایک نیوز: بحیرہ روم میں کشتی ڈوبنے کے بعد   100  سے زائد   تارکین وطن کی جانیں ایک سپر یاٹ ’’میان کوئین IV 14 ‘‘ نے بچائیں۔ 
تفصیلات کے مطابق سپر یاٹ ’’میان کوئین IV 14 ‘‘ بحیرہ روم میں سفر کررہی تھی جب  اسے 4 سمندری میل دور ایک تارکین وطن کے جہاز کے بارے میں کال موصول ہوئی تھی۔20 منٹ بعد ہی میان کوئین جائے سانحہ پر پہنچ چکی تھی جہاں ڈوبنے والے تارکین وطن چیخ وپکار کررہے تھے اوریونانی کوسٹ گارڈ کا عملہ نیم دلی سے ان کو بچانے کی کوشش کررہا تھا ۔
جرمن ساختہ سپر یاٹ ’’میان کوئین IV 14 ‘‘  ارب پتی  میکسیکن سلور میگنیٹ خاندان کی ملکیت ہے جس کی مالیت تقریبا 175 ملین ڈالر  ہے ۔میان کوئین کے کپتان، رچرڈ کرکبی نےواقعے کو خوفناک قرار دیتے ہوئے بتایاکہ انہوں نے فوری طورپر ڈوبنے والوں کو بچانے کی کوششیں شروع کردیں اورچند ہی گھنٹوں میں، 305 فٹ لمبی  میان کوئین 100 سے زائد پاکستانی، شامی، فلسطینی اور مصری مردوں سے بھر گئی۔  اس سانحے میں  650 مرد، خواتین اور بچے ڈوب گئے تھے ۔
میان کوئین  نے مسافروں کو یونان کے شہر کالاماتا کی ایک بندرگاہ پر  اتارا جہاں سے انہیں پہلے ہسپتال اور پھر شیلٹر منتقل کردیا گیااور کچھ لاشیں بھی اسپتال منتقل کی گئیں۔یونانی حکام نے خود مدد کرنے کی بجائے دنیا کی 100 سپر یاٹس میں سے ایک  میان کوئین کو اس لئے طلب کیا تھا کہ وہ بھی شائد بروقت مدد کے لئے نہیں پہنچے گی اور بچ جانے والے مسافر بھی اپنے بدقسمت ہم سفروں کی طرح ہمیشہ کے لئے سمندر کی گہرائی میں ہمیشہ کے لئے جاسوئیں گے لیکن یونانی عملے سے زیادہ تارکین  وطن کو محض تین افراد پر مشتمل میان کوئین کے عملے نے بچالیا۔ 

https://www.pnntv.pk/digital_images/large/2023-06-22/news-1687432744-2641.jpg
 یادرہے سپر یاٹ میان کوئین سوئمنگ پولز، جاکوزی، ہیلی پیڈز اور دیگر  سہولیات سے لیس ہے جس میں عام لوگ سفر کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے  لیکن  یہ سپر یاٹ دنیا میں عدم مساوات کی ایک مثال بھی ہے۔  بحرروم میں جہاں ارب پتی افراد سپر یاٹ پر  زندگی کی نعمتوں  سے لطف اندوز ہورہے ہیں اسی سمندر میں مایوس کن غربت  کے شکار تارکین وطن محض نقل مکانی کر تے ہوئے ڈوب رہے تھے۔ 
آئرش سینٹر فار ہیومن رائٹس میں سمندر کے قانون اور انسانی حقوق کے ماہر افروڈائٹ پاپا کرسٹوڈولو  کا کہنا تھا کہ  کہ یونانی کوسٹ گارڈز حکام نے ڈوبنے والی کشتی کے عملے سے سارا دن گفتگو کے بعد  مدد کے لئے سپر یاٹ کو کیوں بلایا ؟ خود مدد کیوں نہیں کی  یہ ایک اور سوالیہ نشان ہے۔" بچائے جانے والوں میں سے کسی نے بھی لائف واسکٹ نہیں پہنی تھی۔ تفتیش کار ابھی تک یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اٹلی پہنچنے کی کوشش میں ٹرالر کے ڈوبتے ہی کیا ہوا  تھا۔ کیا اسمگلروں نے مدد سے انکار کر دیااور جہاز افراتفری اور گھبراہٹ کی وجہ سے الٹ گیا؟  یونانی  کوسٹ گارڈ کا دعویٰ ہے کہ جہاز کو کھینچنے کی ناکام کوشش اس  کے غرق ہونے کی وجہ بنی۔