سعودی ولی عہد کا دورۂ ترکی، طیب اردوان سے ملاقات

Jun 22, 2022 | 22:17 PM

Waleed shahzad
ایک نیوز نیوز:سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ بات چیت کے لیے کئی برسوں میں پہلی مرتبہ ترکی کا دورہ کیا جس کا مقصد سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد دونوں ممالک کے درمیان خراب تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق اپریل میں رجب طیب اردوان نے علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے ایک ماہ کی طویل مہم کے بعد سعودی عرب کا دورہ کیا تھا، ان کے دورہ سعودی عرب کے مقاصد میں استنبول میں جمال خاشقجی کے 2018 کے قتل کے مقدمے کو ختم کرنا بھی شامل تھا۔
ترک صدر نے اپنے دورے کے دوران ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ون آن ون ملاقات کی تھی جس کے دوران انہوں نے بات چیت میں سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری کے امکانات کو وسعت دینے کی کوشش کی تاکہ ترکی کی مشکلات سے دوچار معیشت کو بحال کرنے میں مدد حاصل کی جائے۔
رجب طیب اردوان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ اور ریاض کے بااختیار رہنما شہزادہ محمد بن سلمان انقرہ میں ہونے والی بات چیت کے دوران اس بات پر تبادلہ خیال کریں گے کہ وہ دونوں ممالک کے تعلقات کو کس اعلیٰ سطح تک لے جا سکتے ہیں۔
سینئر ترک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز سے گفتگو کرتےہوئے بتایا کہ اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان بحران سے قبل جیسے تعلقات کی مکمل طور پر بحالی کی امید ہے جس سے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔
سینئر ترک عہدیدار نے کہا کہ ترکی کے گرتے ہوئے زر مبادلہ کے ذخائر کو بحال کرنے میں مدد کرنے کی صلاحیت کی حامل ممکنہ کرنسی سویپ لائن پر بات چیت اور مذاکرات اتنی تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہے جس رفتار سے ان میں پیش رفت ہونی چاہیے تھی اور اس معاملے پر رجب طیب اردوان اردگان اور شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ہونے والی ون آن ون ملاقات میں بات چیت کی جائے گی۔
سینئر ترک عہدیدار نے دورے کی تفصیلات سے متعلق مزید بتایا کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے کے دوران توانائی، معیشت اور سیکیورٹی سے متعلق معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے جب کہ سعودی سرمایہ کاروں کی جانب سے ترکی میں سرمایہ کاری سے متعلق منصوبہ بھی زیر غور ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان ان دنوں 3 سال بعد خلیجی خطے سے باہر کے ممالک کے اپنے پہلے دورے پر ہیں، ان کے اس دورے میں اردن کا دورہ بھی شامل ہے۔
واشنگٹن انسٹیٹیوٹ میں ترکی کے ماہر کا کہنا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تقریباً ایک دہائی میں کسی بھی غیر ملکی رہنما کا انقرہ کے سب سے اہم دوروں میں سے ایک دورہ ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ رجب طیب اردوان، رجب طیب اردوان ہے، وہ کسی بھی طرح صدارتی الیکشن جیتنا چاہتے ہیں اور میرے خیال میں الیکشن جیتنے کے لیے ہی انہوں نے عاجزی کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی یہ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عالمی طاقتوں اور سعودیوں کے حریف ایران کے درمیان ممکنہ نئے جوہری معاہدے سے قبل کیا وہ وسیع تر حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2018 میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب اور ترکی کے باہمی تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔
جمال خاشقجی سعودی عرب کے اندرونی معاملات سے باخبر صحافی تھے جو بعد میں سلطنت کی پالیسیوں کے نقاد بن گئے تھے، مقتول صحافی کے جسم کی باقیات اب تک نہیں ملیں۔
رجب طیب اردوان نے پہلے الزام لگایا تھا کہ سعودی حکومت کی 'اعلیٰ ترین قیادت' نے صحافی کے قتل کا حکم دیا تھا۔
ترکی نے بعد میں سعودی عرب پر اس معاملے میں تنقید کا سلسلہ روک دیا تھا اور اپریل میں قتل کے مقدمے کی سماعت روک کر کیس کو ریاض منتقل کردیا تھا جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس اقدام کی مذمت کی گئی تھی اور اپوزیشن جماعتوں نے اس قدم کو مالی حمایت کے بدلے عزت کی تجارت قرار دیتے ہوئے تنقید کی تھی۔
سعودی ولی عہد کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کہ ترکی کی معیشت لیرا کی قدر میں کمی اور مہنگائی کی شرح 70 فیصد سے زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے بری طرح دباؤ کا شکار ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی مالی حمایت اور غیر ملکی کرنسی رجب طیب اردوان کو جون 2023 تک انتخابات سے قبل حمایت حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
ترک عہدیدار نے کہا کہ سعودی عرب ترکی ویلتھ فنڈ یا حالیہ مہینوں میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری جیسے اقدامات میں دلچسپی لے سکتا ہے۔
ترک عہدیدار مزید کہا کہ ترک صدر ریاض کو ترک مسلح ڈرونز کی ممکنہ فروخت پر بھی بات کریں گے۔
حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی کے رہنما نے گزشتہ روز کہا تھا کہ رجب طیب اردوان اس شخص کو گلے لگائیں گے جس نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔
مزیدخبریں