سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں وزیرخزانہ مفتاح اسمٰاعیل نے کہا کہ ‘چائنیز کنسورشیئم آف بینکس نے آج 2.3 ارب ڈالر کی قرض سہولت کے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں.
اس سے قبل پاکستان کی طرف سے گزشتہ روز دستخط کیے گئے تھے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘رقم کی وصولی چند روز میں متوقع ہے، ہم اس معاہدے کے لیے سہولت کاری پر چینی حکومت کے مشکور ہیں’۔
رواں مہینے کے اوائل میں مفتاح اسماعیل نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اچھی خبر ہے، چین کے بینکوں سے 2.3 ارب ڈالر قرض کے حوالے سے شرائط و ضوابط پر اتفاق ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی یہ رقم پاکستان کو موصول ہو جائے گی جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے میں مدد ملے گی۔
2 جون کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے مفتاح اسمٰاعیل کا کہنا تھا کہ چین نے قرض 25 مارچ کو واپس لے لیا تھا، سخت شرائط کی وجہ سے پاکستان ان فنڈز کو استعمال نہیں کرسکتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورے اور وزیراعظم شہباز شریف کی چینی ہم منصب سے اس حوالے سے بات چیت کے سبب چین یہ رقم 1.5 فیصد پلس 'شنگھائی انٹر بینک آفر ریٹ' (شائیبور) کی کم شرح سود پر 'رول اوور' کرنے پر رضا مند ہو گیا تھا ، اس سے پہلے یہ شرح 2.5 فیصد پلس شائیبور تھی۔
قبل ازیں پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان قرض کی قسط جاری کرنے کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی اور اسلام آباد کو توقع ہے کہ آئی ایم ایف 39 ماہ کے لیے 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کے حجم اور مدت میں اضافہ کرے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق دونوں طرف سے یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستان کی معیشت مالیاتی بحران کے دہانے پر پہنچ گئی ہے، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کم ترین سطح پر ہے کیونکہ معاشی غیر یقینی کی صورت حال کی وجہ سے آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کی قسط روک دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز روپے کی گرتی قدر کے سبب امریکی ڈالر نے نئے ریکارڈ قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا اور انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے دوران مقامی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر 212 روپے تک پہنچ گیا تھا۔
گزشتہ روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کے دعوؤں کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ ملکی بینکوں میں نہ تو امریکی ڈالر ختم ہو رہے ہیں نہ ہی مرکزی بینک نے درآمدی ادائیگیاں روک دی ہیں۔
دریں اثنا، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سمجھوتہ طے پانے کی پیش رفت کے بعد آج روپے نے ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کھونے کا سلسلہ آخر کار ختم کر دیا، بدھ کے روز کاروبار کے دوران انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 3 روپے 80 پیسے کا اضافہ دیکھا گیا۔
اسلام آباد میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے رائٹرز کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے عملے اور پاکستانی حکام کے درمیان آنے والے سال میں میکرو اکنامک استحکام کو مضبوط بنانے کی پالیسیوں پر بات چیت جاری ہے اور مالی سال 2023 کے بجٹ میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
پاکستان نے رواں مہینے مالی سال 23-2022 کے لیے 9500 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے جس کا مقصد سخت مالی استحکام ہے تاکہ آئی ایم ایف کو انتہائی ضروری قرض پروگرام کی بحالی پر راضی کیا جاسکے۔
تاہم آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ پروگرام کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو بجٹ میں مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
رائٹرز سے بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰاعیل نے کہا کہ دونوں فریقین نے منگل کی رات کو معاہدہ طے کرنے کے لیے بات چیت کی اور بجٹ اور مالیاتی اقدامات پر اتفاق کیا لیکن پھر بھی مالیاتی اہداف کو مزید پورا کرنے کے لیے اتفاق کی ضرورت ہے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسمٰاعیل کو آئی ایم ایف کے ساتھ بقیہ مذاکرات میں کسی ہچکچاہٹ کی توقع نہیں ہے اور میکرو اکنامک اور مالیاتی اہداف پر ابتدائی یادداشت پیش کرنے اور اس کے بعد ایک سرکاری معاہدے کی توقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بھی امید ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی مدت ایک سال تک بڑھائی جائے گی اور قرض کی رقم بھی بڑھ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے تاحال اس پر عمل نہیں کیا مگر جو مذاکرات ہوئے ہیں اس کی بنیاد پر امید ہے کہ ایسا ہوگا۔
خیال رہے کہ رواں سال اپریل میں جب وزیر خزانہ مفتاح اسمٰاعیل واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے حکام کے ساتھ ملے تو انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کی مدت اور مالیت میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان نے 2019 میں آئی ایم ایف پروگرام میں دستخط کیے تھے لیکن آج تک صرف نصف فنڈز ہی جاری کیے گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کی طرف سے آخری قسط فروری میں جاری ہوئی تھی اور اگلی قسط مارچ میں نظرثانی کے بعد آنی تھی لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے ایندھن کی قیمتوں میں کمی کر دی،جس سے مالیاتی اہداف اور آئی ایم ایف پروگرام تعطل کا شکا ہوگیا تھا۔