چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن نے این اے 240 کراچی ضمنی انتخاب میں پولنگ اسٹیشن نمبر 87 پر بیلٹ پیپرز چوری ہونے اور پی ایس پی کی جانب سے مختلف پولنگ اسٹیشنز پر توڑ پھوڑ اور تشدد کے کیسز کی سماعت کی۔
پولنگ اسٹیشن نمبر 87 لانڈھی زمان آباد کے پریزائیڈنگ افسر حبیب خان اور ایس ایس پی فیصل بصیر میمن الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
اسپیشل سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بریفنگ میں بتایا کہ پریزائیڈنگ افسر پر الزام ہے کہ انہوں نے بیلٹ پیپرز چوری کیے، پریزائیڈنگ افسر کو پہلے گرفتار کر کے بعد میں رہا کر دیا گیا۔
ایس ایس پی فیصل بصیر نے کہا کہ ہمیں الیکشن کی صبح اطلاع ملی کہ پریزائڈنگ افسر ایک سیاسی جماعت کے پولنگ ایجنٹ کے ساتھ مل کر بیلٹ پیپر چوری کر رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے، ایک سیاسی کارکن چوری کی کوشش کر رہا تھا لیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔
الیکشن کمیشن نے مقدمہ کے اندراج کے لیے اسپیشل سیکریٹری کو شکایت درج کرنے کا حکم دے دیا۔
پریزائڈنگ افسر پولنگ اسٹیشن نمبر 87 حبیب خان نے تحریری جواب جمع کرواتے ہوئے کہا کہ مجھ پر بیلٹ پیپر چوری کرنے کا الزام غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ 10 بجے ایک شخص آیا اور پوچھا کہ کوئی ٹھپے کا آسرا ہے، میں نے کہا ٹھپے نہیں لگیں گے تو وہ مسکرا کر چلا گیا، کچھ دیر بعد سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد پولنگ اسٹیشن پہنچ گئی، مجھ پر تشدد کیا گیا، میں مشکل سے جان بچا کر وہاں سے نکلا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ان افراد کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتے گا، ایس ایس پی صاحب فوٹیج سے لوگوں کی شناخت کریں۔
الیکشن کمیشن نے سیکرٹری عمر حمید خان کو خصوصی انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی ریٹرننگ افسر، پریزائیڈنگ افسر اور ڈی ایم او کے کردار کی انکوائری کرے اور 10 دن میں رپورٹ پیش کرے۔
این اے 240 میں بد امنی کیس کی سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ اور کارکنان پر توڑ پھوڑ، تشدد کے سنگین الزامات ہیں اور فوٹیج بھی موجود ہے۔
پی ایس پی سربراہ مصطفیٰ کمال کے وکیل حفیظ الدین نے کمیشن کو بتایا کہ مصطفیٰ کمال سیاست میں آج سے نہیں ہیں جس پر چیف الیکشن کمشنر نے وکیل کو روک دیا اور کہا کہ کوئی سیاسی بیان نہیں دینا ہے کیس پر بات کرنی ہے، ہمارے لیے قومی لیڈرز قابل احترام ہیں لیکن قانون توڑنے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔
اس موقع پر وکیل حفیظ الدین نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کسی پولنگ اسٹیشن پر نہیں گئے، مصطفیٰ کمال کی ایک بھی ویڈیو منظر عام پر نہیں آئی، ہمیں پولیس پر اعتبار نہیں ہے کسی اور ادارے سے تحقیقات کروائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایم کیو ایم کا اسٹائل ہے، ہم کسی واقعہ میں ملوث نہیں ہیں، مختلف جگہوں پر ایم کیو ایم اور ٹی ایل پی کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا۔
مصطفیٰ کمال کے وکیل نے کہا کہ ڈسکہ سے زیادہ دھاندلی این اے 240 میں ہوئی جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اگر ثبوت دے دیں تو کارروائی بھی ڈسکہ سے زیادہ ہو گی۔
اسپیشل سیکریٹری نے بریفنگ میں بتایا کہ ضمنی انتخاب میں بدامنی پر تین ایف آئی آرز درج کی گئیں، پولنگ اسٹیشن نمبر 36 کے پریزائیڈنگ افسر کے مطابق مصطفیٰ کمال کارکنان سمیت خواتین پولنگ بوتھ میں داخل ہوئے۔
پریزائیڈنگ افسر کے مطابق مصطفیٰ کمال اور کارکنان نے پولنگ عملے کو زدوکوب کیا، بعد ازاں پی ایس پی کارکنوں نے پولنگ اسٹیشن کے باہر لوگوں پر تشدد کیا اور ہوائی فائرنگ کی، پولنگ اسٹیشن نمبر 51 کے پریزائیڈنگ افسر نے پی ایس پی پر تشدد کا الزام لگایا۔
پریزائڈنگ افسر نے بتایا کہ 300 سے 400 کارکنان نے دھاوا بولا، الیکشن کمیشن ان کے خلاف ضابطہ اخلاق اور الیکشن ایکٹ کے تحت کارروائی کر سکتا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیئے کہ اگر پارٹی کا سربراہ خود جتھا لے کر آئے تو اس کی سزا کیا ہو سکتی ہے، جس پر ایس ایس پی فیصل بصیر نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کا سربراہ 400 سے 500 کارکنوں کے ہمراہ مختلف پولنگ اسٹیشنز پر حملہ آور ہوا۔
انہوں نے کہا کہ بیلیٹ بکس توڑے گئے، عملہ پر تشدد کیا گیا، بعد ازاں سیاسی جماعت کا سربراہ لانڈھی میں اپنے دفتر چلا گیا جہاں دوسرے سیاسی گروپ سے اس کا جھگڑا ہوا۔
وکیل مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ہمارے بارہ سے تیرہ افراد زخمی ہوئے، ایک کارکن جاں بحق ہوا، اس کی بھی بات کریں جو ہمارے دفتر پر حملہ ہوا۔
ہمارے کسی کارکن کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا، چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ فی الحال یہ کیس ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن ہم رپورٹ طلب کرلیتے ہیں،
الیکشن کمیشن نے پولیس سے مصطفیٰ کمال پر حملے کی رپورٹ بھی طلب کر تے ہوئے الیکشن کمیشن نے بد امنی کیس میں بھی انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کر دی،کیس کی سماعت 10 روز کے لیے ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے 16 جون کو کراچی کے حلقہ این اے 240 میں ضمنی انتخابات کے دوران تشدد کے واقعات پیش آئے تھے جس میں ایک شخص جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔
بعدازاں 17 جون کو پولیس نے پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) کے چیئرمین مصطفیٰ کمال، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد رضوی اور سیکڑوں کارکنوں کے خلاف لانڈھی اور کورنگی میں ضمنی انتخاب کے دوران دہشت گردی، قتل اور پُرتشدد جھڑپوں پر 4 مقدمات درج کیے تھے۔
سرکاری حکام کے مطابق ان واقعات میں ایک راہگیر ہلاک اور دیگر افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نجی گارڈز سمیت 250 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔
مزید بتایا گیا کہ ٹی ایل پی اور پی ایس پی سربراہان کے خلاف ایف آئی آرز میں دفعات 147، 148، 149، 302، 452، 427، 337 اے (ا)، 324 اور 7 اے ٹی اے شامل کی گئی ہیں۔
پولیس کے ترجمان نے جاری بیان میں بتایا تھا کہ فائرنگ اور پُرتشدد واقعات پر چار مقدمات درج کیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن کے پریزائڈنگ افسران (پی او) کی شکایت پر دو مقدمات درج کیے ہیں جبکہ لانڈھی اور کورنگی پولیس کی جانب سے سرکاری مدعیت میں دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔