ایک نیوز : پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور پاکستان ڈویلپمنٹ الائنس کے زیراہتمام سیاسی کشیدگی اور معاشی افراتفری کے حوالے سے نئے میثاق جمہوریت کیلئے نیشنل ڈائیلاگ کااہتمام کیاگیا۔
میثاقِ جمہوریت کیلئے نیشنل ڈائیلاگ کاانعقاد نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں کیاگیا۔پیپلز پارٹی کے رہنما و سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، صدر پی ایف یو جے افضل بٹ،سابق وزیراعلی بلوچستان و نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،سیاست دان، وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔
سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کا نیشنل ڈائیلاگ سے خطاب میں کہنا تھا کہ نیشنل پریس کلب کو نیشنل ڈائیلاگ کا آغاز کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔سیاسی جماعتیں اِس گرما گرمی کے ماحول میں ڈائیلاگ کیلئے تیار نہیں ہیں۔میثاق جمہوریت سے بہت بہتری ہوئی لیکن اسکے بعد کیا ہوا، سوچنے کی بات ہے۔میثاق جمہوریت کے بعد جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی، حکومت نے مدت پوری کی۔میثاق جمہوریت سے 58 ٹو بی کا راستہ روکا گیا لیکن عدلیہ کے ذریعے ایک وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا۔جمہوری عمل کا آگے بڑھنا میثاقِ جمہوریت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
فرحت اللہ بابر کا مزید کہنا تھاکہ کچھ لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اور انہوں نے 1999 کا دور واپس لانے کی کوشش کی۔2018 میں جو کچھ ہوا یہ اسی کی کڑی ہے، جمہوری حکومت کی منتقلی انہیں ہضم نہیں ہوئی
میں میثاق جمہوریت کے تمام نکات سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں۔2006 کے میثاق جمہوریت میں سول ملٹری تعلقات سے متعلق نکات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔آج آئین کی پچاسویں سالگرہ منائی جا رہی ہے الیکشن کی آمد آمد ہے۔پنجاب میں 45 ہزار ایکڑ زمین ملٹری کو ملی اور 45 ہزار ایکڑ بلوچستان میں مل چکی۔ایک کمیشن بنایا جائے جو ان ملٹری کو دی جانے والی زمینوں کو ازسر نو جائزہ لے۔یہ 90 ہزار ایکڑ زمین واپس تو نہیں ہو سکتی لیکن پارلیمنٹ سے اس پر آواز اٹھائی جانی چاہئے۔جب پارلیمنٹ سے اس معاملے پر آواز اٹھے گی تو اس کا راستہ روکا جا سکے گا۔
صدر نیشنل پریس کلب انور رضا کاکہنا تھاکہ آج گھٹن زدہ ماحول میں نیشنل ڈائیلاگ کے ذریعے جمہوری آزادیوں کے علمبردار اکٹھے ہوئے ہیں۔ایسا لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو جمہوریت پر اسکی حقیقی روح کے مطابق عملدرآمد یقینی بنائے۔
سینئر قانون دان شاہ خاور ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو اہم میثاقِ جمہوریت کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نیا میثاق جمہوریت کر کے اس پر دستخط کرنے چاہئیں
تحریک انصاف کیلئے بھی بڑا اہم وقت ہے کہ وہ بھی میثاق جمہوریت کا حصہ بنیں۔تحریک انصاف جن پر الزام عائد کرتی ہے انہی کی طرف دیکھنے کی بجائے سیاسی جماعتوں کی طرف آئے۔اعلی عدلیہ کے ججز کی تعیناتی میں پارلیمانی کمیٹی کو نہایت بےوقعت کر دیا گیا ہے۔ججز کی تعیناتی کی پارلیمانی کمیٹی کو اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا بھی از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔کمیشن میں جوڈیشل سائیڈ کی نمائندگی زیادہ ہے تو وہاں اقرباء پروری ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو کاکہنا تھاکہ پارلیمنٹ میں دو منٹ میں بل پاس ہو جاتا ہے اس طرح قانون سازی کی جاتی ہے۔میری جماعت میں بھی کوئی غلط بات ہو رہی ہو تو اختلاف کرتا ہوں۔میثاقِ جمہوریت پارلیمنٹیرینز نے کرنا ہے نا، وہ کس طرح ہو گا۔جو اربوں روپے کا حساب نہیں دے پائے وہ میثاقِ جمہوریت نہیں کر سکتے۔میثاقِ جمہوریت پاکستان کے عوام، وکلاء اور سول سوسائٹی نے کرنا ہے۔
سابق ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون کاکہنا تھاکہ آئین کی سبز کتاب ریاست اور عوام کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔عوام کے منتخب کردہ نمائندوں نے اس معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔ریاست اس معاہدے کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی ہے۔آئین پاکستان کے ساتھ ہمیشہ کھلواڑ کیا گیا اور سیاسی جماعتیں اسکا حصہ بنی رہیں۔ہمیں آج دکھائی دے رہا ہے کہ ریاست تقریباً ناکام ہو چکی ہے۔آج ہائبرڈ رجیم اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہے۔جو بولنے کی کوشش کرتا ہے اس کا قلع قمع کر دیا جاتا ہے۔آج میڈیا کا گلا گھونٹا جا رہا ہے ریاست ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہے
کوئی ادارہ اپنا کام نہیں کر رہا بلکہ دوسروں کے دائرہ کار میں مداخلت کر رہا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا تھاکہ اس ملک میں سویلین بالادستی کیلئے تمام تر کوششیں کرنا ہونگی۔سیاسی جماعتوں کو اب بھی کچھ خیال نہیں آ رہا کہ وہ کیا کر رہی ہیں
پاکستان کی بقا جمہوریت اور آئین سے ہے، لوگ اب مزید جبر برداشت نہیں کرینگے۔ہم اب پارلیمان کی بالادستی اور جمہوریت کیلئے تمام تر توانائیاں صرف کرینگے۔