ایک نیوز: ڈی آئی جی شارق جمال کی اچانک موت پولیس افسران کے لیے معمہ بن گئی۔ پولیس نے شارق جمال کے فلیٹ سے کھانے پینے کی چند اشیاء اور برتنوں کو معائنے کیلئے قبضہ میں لے لیا۔
پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ قراۃالعین نامی ایک لڑکی اور اس کا خاوند فلیٹ پر موجود تھا۔ نشتر کالونی کے علاقے میں فلیٹ کچھ عرصہ قبل شارق جمال نے ہی خریدا تھا۔ بلیٹ کے ایک ملازم کو پولیس نے حراست میں لیا ہے۔ جس نے بتایا ہے کہ مذکورہ خاتون اکثر اپنے خاوند کے ساتھ شارق جمال کو ملنے آتی تھی۔
پولیس ذرائع کے مطابق رات گئے اسی خاتون نے شارق جمال کو مردہ حالت میں دیکھ کر ریسکیو 1122 کو کال کی۔ پولیس نے اب تک 10 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ جن سے تفتیش جاری ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ڈی آئی جی کا پوسٹ مارٹم جاری ہے جس کے بعد ہی حقائق سامنے آئیں گے۔ پولیس نے ڈی آئی جی شارق جمال کی پراسرار ہلاکت قتل، خودکشی اور حادثاتی موت سمیت مختلف پہلوؤں پر تفتیش شروع کردی ہے۔
پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ سابق ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور شارق جمال خان کی اپنی اہلیہ سے ناراضگی چل رہی تھی۔ وہ تقریبا 5 ماہ سے نشتر کالونی کے علاقے میں ایک دوست کے فلیٹ میں رہ رہے تھے۔ جہاں رات دو بجے ان کی حالت خراب ہونے پر ریسکیو 1122 کو اطلاع دی گئی جو انہیں فوری نیشنل اسپتال لیکر پہنچے۔ جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔
اطلاع ملنے پر پولیس ا ور فورانزک ٹیمیں بھی موقع پر پہنچ گئیں اور کمرے سے متعدد ادویات کو معائنے کے لئے بھیج دیا۔ دوسری طرف ان کی لاش کا جناح اسپتال میں پوسٹ مارٹم کر لیا گیا جس کے بعد ان کے اہلخانہ نے قانونی کارروائی سے انکار کر دیا ہے۔
https://www.pnntv.pk/uploads/digital_news/2023-07-22/news-1690013414-3528.mp4
ذرائع کے مطابق پولیس نے شارق جمال کی ڈیڈ باڈی اسپتال لیکر آنے والی خاتون اور اس کے شوہر کو حراست میں لے کر چھوڑ دیا اور لاش کو ورثا کے حوالے کردیا ہے۔
پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ شارق جمال کو اسپتال لانے والی خاتون اسلام آباد کے سرکاری ادارے کی آفیسر ہے۔ جس کا ابتدائی بیان منظرعام پر آگیا ہے۔
اپنے بیان میں خاتون نے کہا ہے کہ شارق جمال کی طبیعت ذہنی پریشانی ادویات لینے سے خراب ہوئی۔ طبعیت خراب ہونے پر انھوں نے پہلے پہلے پانی اور پھرکولڈ ڈرنک پی۔ ساڑھے 12 بجے طبعیت زیادہ خراب ہونے پر اسپتال لے آئےجہاں ڈاکٹرز نے شارق جمال کی موت کی تصدیق کر دی۔
یاد رہے کہ شارق جمال ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور بھی تعینات رہ چکے ہیں۔