درخواست میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا۔ درخواست گزار کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس صحافیوں کی آواز دبانے کے لیے لایا گیا ہے، حکومت پیکا ترمیمی آرڈیننس لا کر اپنے مذموم مقاصد پورا کرنا چاہتی ہے، پارلیمنٹ کی موجودگی میں صدارتی آرڈیننس جاری کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ استدعا ہے کہ عدالت پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022 کو کالعدم قرار دے۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی کی مرکزی نائب صدر و سینیٹر شیری رحمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ فیک نیوز اور گالم گلوچ تحریک انصاف کی طرف سے آتی ہیں، حکومت پر تنقید ریاست پر تنقید نہیں ہوتی، تمام سیاسی جماعتوں، صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس کو مسترد کیا ہے لیکن عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں آرڈیننس پر تنقید کو بلا جواز قرار دیا گیا ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ اگر آرڈیننس فیک نیوز کو روکنے کے لئے ہے تو اس میں فیک نیوز کی تشریح کیوں نہیں کی گئی ؟ اس حکومت کا کاروبار آرڈیننس پر ہی چل رہا ہے، ساڈھے تین سال میں 70 سے زائد آرڈیننس جاری کئے گئے ہیں، اگر آپ کی نیت ٹھیک تھی تو ترامیم پارلیمان میں کیوں پیش نہیں کی گئی، پارلیمان کے اجلاس کیوں ملتوی کئے گئے، تحریک انصاف خود کو ریاست سمجھنا بند کرے، ہم اس قانون کو چیلنج کریں گے۔