ایک نیوز:سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود کی ضمانت کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ رکارڈ پر ملزمان کا جرم سے تعلق دکھانے والا کوئی مواد موجود نہیں ہے کسی اور ملک کےفائدے کیلئے معلومات شیئر کرنے سے متعلق کچھ رکارڈ پر نہیں،ظاہر کی گئی معلومات کا کسی دفاعی تنصیبات یا معاملات سے بھی تعلق نہیں یہ ماننے کی کوئی معقول بنیاد نہیں کہ ملزمان نے قابل سزا جرم کا ارتکاب کیا ہے،یہ کیس مزید انکوائری کا ہے ہائیکورٹ نے ضمانت خارج کرنے کی صوابدید کو غلط طریقے سے استعمال کیا۔
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا ضمانت خارج کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہائیکورٹ نے چار ہفتے میں ٹرائل مکمل کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کرلی۔سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی۔عدالت نے دلائل سننے کے بعد بانی پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی 10، 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی۔
سماعت کا احوال
سماعت کے آغاز پر عدالت عظمیٰ نے فرد جرم کیخلاف درخواست پر حامد خان کی دلائل کیلئے مہلت کی استدعا منظور کی جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) کے پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیئے کہ ابھی نوٹس کر دیتے ہیں آپ کو کیا جلدی ہے۔پرانی چارج شیٹ کے خلاف درخواست غیر موثر ہوچکی، نئی فرد جرم پر اعتراض ہے تو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں۔
حامد خان نے استدعا کی کہ مناسب ہوگا آج ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ 6 بجے تک ٹرائل چلتا ہے، ایسا نہ ہو آئندہ سماعت تک مکمل ہوجائے، عدالتی اوقات کار کے بعد بھی ٹرائل چل رہا ہوتا ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوگ کہتے ہیں ہمارے کیس چلتے نہیں، آپ کا چل رہا تو آپ کو اعتراض ہے، فرد جرم والی درخواست غیر مؤثر ہونے پر نمٹا دیتے ہیں۔
سلمان صفدر نے کہا کہ حامد خان درخواست میں ترمیم کر چکے، اسے نئی درخواست کے طور پر لیا جائے۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ ترمیم شدہ درخواست بھی ہائیکورٹ سے پہلے ہم کیسے سن سکتے ہیں؟
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لئے ہیں۔
سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ اسپیڈی ٹرائل ہر ملزم کا حق ہوتا ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں کہ ٹرائل جلدی مکمل نہ ہو؟۔
سلمان صفدر نے کہا کہ ان کیمرا ٹرائل کیخلاف درخواست آج ہائی کورٹ میں بھی زیرسماعت ہے، دوسری درخواست فرد جرم کیخلاف ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو فرد جرم چیلنج کی تھی وہ ہائی کورٹ ختم کر چکی ہے، نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
حامد خان نے کہا کہ ٹرائل اب بھی اسی چارج شیٹ پر ہو رہا ہے جو پہلے تھی۔
عدالت نے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے خلاف کیس کی سماعت ملتوی کر دی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری کر دیا جبکہ دونوں ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت جاری رہی۔
وکیل سلمان صفدر
وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ سائفر کیس میں وزارت داخلہ کے سیکرٹری شکایت کنندہ ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں طلبی پر 7 ماہ حکم امتناع دے رکھا ہے، سات ماہ تک ایف آئی اے نے خاموشی اختیار کی اور توشہ خانہ میں ضمانت ہوتے ہی گرفتار کرلیا،سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں گرفتارکرنے کی 40 مرتبہ کوشش کی گئی، ایف آئی اے کے مطابق تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان پر میٹنگ منٹس توڑ مروڑ کر تحریر کرنے کا الزام ہے، ایف آئی اے کے مطابق تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہے، تعین کے باوجود نہ اعظم کو نہ اسدعمر کو گرفتار کیا گیا اور اعظم خان ملزم کے بجائے سائفر کیس کے مقدمے کےاندراج کے اگلے دن گواہ بن گئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کو کیسے معلوم ہوا کہ بنی گالا میں میٹنگ ہوئی تھی۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ ایف آئی اے ہی بتا سکتا ہے، اب تک پراسیکیوشن نے ذرائع نہیں بتائے،سائفر وزارت خارجہ سے آیا،پراسیکیوشن کے مطابق سکیورٹی سسٹم رسک پر ڈالا گیا، وزارت خارجہ نے سائفر سے متعلق کوئی شکایت نہیں کی۔
سلمان صفدر نے الزام عائد کیا کہ سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، راناثناء اللہ نے بطور وزیر داخلہ ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کا کہا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ کیس کو قانونی تک رکھیں سیاسی طرف نہ لے کر جائیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سائفر کوڈز کی صورت میں آتا ہے، وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈز پر مبنی سائفر وزیراعظم کو نہیں دیتا، وزارت خارجہ وزیراعظم کو سائفر کا ترجمہ یا بریفنگ دیتی ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے مؤقف اختیار کیا کہ سائفر کوڈز ہر ماہ تبدیل ہوتے ہیں، سائفر کا انگریزی ترجمہ متعلقہ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پراسیکیوشن کا کیا کہنا ہے سائفر کس کیساتھ شیئر کیا گیا؟۔
وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ سائفر کسی کے ساتھ کبھی شیئر نہیں کیا گیا، جلسے میں کہیں نہیں کہا کہ سائفر میں کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سابق وزیراعظم کو جیل میں رکھنے سے معاشرے کو کیا خطرہ ہوگا۔
وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ دفعہ 164 کا بیان ملزم کا اعترافی بیان ہوتا ہے،اعظم خان کے اہلخانہ نے انکی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا، اعظم خان دو ماہ لاپتہ رہے، یہ اغواء برائے بیان کا واقعہ ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اغواء برائے تاوان تو سنا تھا اغواء برائے بیان کیا ہوتا ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ میرے لئے سب سے آسان الفاظ اغواء برائے بیان کے ہی تھے۔
قائمقام چیف جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیئے کہ اغواء برائے بیان ابھی اصطلاح ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا تفتیشی افسر نے اعظم خان کی گمشدگی پر تحقیقات کیں۔
وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اعظم خان کا بیان دباؤ کا نتیجہ ہے تفتیشی افسر نے کوئی تحقیقات نہیں کیں، اعظم خان نے واپس آتے ہی سابق وزیراعظم کے خلاف بیان دے دیا۔
وکیل سلمان صفدر پریڈ گراونڈ میں 27 مارچ 2022 کے جلسے میں شاہ محمود قریشی کی تقریر پڑھ کر دی اور کہا کہ شاہ محمود قریشی نے تقریر میں کہا کہ بہت سے راز ہیں لیکن حلف کی وجہ سے پابند ہوں سامنے نہیں رکھ سکتا۔
شاہ محمود خود سمجھدار تھا، بانی پی ٹی آئی کو کہا سائفر پڑھ دو: جسٹس طارق مسعود
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ وزیرخارجہ خود سمجھدار تھا سمجھتا تھا کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں، وزیر خارجہ نے سائفر کا کہا کہ بتا نہیں سکتا اور سابق چیئرمین عمران خان کو پھنسا دیا، شاہ محمود خود بچ گئے اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو کہا کہ سائفر پڑھ دو۔
وکیل سلمان صدر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بھی پبلک سے کچھ شئیر نہیں کیا تھا، اگر سائفر پبلک ہو ہی چکا ہے تو پراسیکیوشن کو سائفر ٹرائل ان کیمرہ کیوں چاہیے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کس بنیاد پر پراسیکیوشن سمجھتی ہے کہ ملزمان کو زیرحراست رکھنا ضروری ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اعظم خان نے بیان دیا کہ سابق وزیراعظم سے سائفر مانگا تو انہوں نے کہا گم گیا ہے،سابق وزیراعظم نے ملٹری سیکرٹری کو بھی سائفر تلاش کرنے کا کہا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اعظم خان کے بیان میں واضح ہے کہ وزیراعظم کے پاس موجود دستاویز سائفر نہیں تھی۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے کہا ان کی موجودگی میں ہی بنی گالہ میں وزارت خارجہ نےبریفننگ دی۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ سیکرٹری خارجہ ملزم ہیں یا گواہ؟۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس وقت کے سیکرٹری خارجہ گواہ ہیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ وزارت خارجہ نے 17 ماہ تک سائفر کی کاپی وزیراعظم سے نہیں مانگی،اعظم خان کے مطابق سابق وزیراعظم عسکری قیادت پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے،اعظم خان نے کہا بنی گالہ میٹنگ کے بعد سائفر کو پبلک میں لہرانے کا فیصلہ ہوا، جس جلسے میں کاغذ لہرایا گیا وہ میٹنگ سے ایک دن پہلے ہوچکا تھا۔
وکیل سلمان صفدر نےسابق سفیر اسد مجید کا بیان بھی پڑھ کر سنا دیا اور سوال اٹھایا کہ اگر کچھ غلط نہیں ہوا تھا تو امریکی سفیر کو بلا کر احتجاج کیوں کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کس بنیاد پر پراسیکیوشن سمجھتی ہے کہ ملزمان کو زیرحراست رکھنا ضروری ہے، بعدازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل سلمان صفدر نے مؤقف پیش کیا کہ سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، 40 مقدمات میں ضمانت قبل ازگرفتاری منظور ہوچکی ہے،کسی بھی سیاسی لیڈر کیخلاف ایک شہرمیں 40 مقدمات درج نہیں ہوئے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم ریاستی دشمن نہیں بلکہ سیاسی دشمن ہیں،سابق وزیراعظم نے خط کے مندرجات کسی سے شیئر نہیں کئے، امریکی سفیر کو بلا کر کہا گیا احتجاج غلط ہے یا پھر سائفر کا مقدمہ، شہباز شریف نے بھی قومی سلامتی کونسل کے نکات کی توثیق کی تھی۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری کے دلائل
بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل مکمل کر لئے تو شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
وکیل علی بخاری نے مؤقف پیش کیا کہ شاہ محمود قریشی پر سائفر رکھنے کا الزام ہے نہ شیئر کرنے کا، ان پر واحد الزام تقریر کا ہے اور الزام کا جائزہ عدالت پہلے ہی لے چکی ہے، شاہ محمود قریشی 10 دن ریمانڈ پر رہے، کوئی برآمدگی نہیں ہوئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا شاہ محمود قریشی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
وکیل علی بخاری نے کہا کہ وہ آج کاغذات جمع کرائیں گے، جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کیلئے اچھی بنیاد ہے۔
پراسیکیوٹر رضوان عباسی کے دلائل
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سائفر کی ایک ہی اصل کاپی تھی جو دفترخارجہ میں تھی، سائفر دفتر خارجہ کے پاس ہے تو باہر کیسے نکلا ہے۔
پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ حساس دستاویزات کو ہینڈل کرنے کیلئے رولز موجود ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ رولز کی کتاب کہاں ہیں؟۔
پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ رولز خفیہ ہیں اس لئے عدالت کی لائبریری میں نہیں ہوں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ رولز کیسے خفیہ ہو سکتے ہیں؟۔
پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ یہ ہدایت نامہ ہے جو صرف سرکارکے پاس ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ڈی کوڈ ہونے کے بعد بننے والا پیغام سائفر نہیں ہوسکتا۔
قائمقام چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سائفر کا مطلب کیا ہے؟۔ جسٹس سردار طارق کے سوال پر جواب دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے، ڈی کوڈ ہونے کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا۔
جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ سائفر جب ڈی کوڈ ہوگیا تو سائفر نہیں رہا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سائفر کے حوالے سے قانون دکھائیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا سیکرٹری خارجہ نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ یہ دستاویز پبلک نہیں کرنی، تفتیشی افسر کو سیکرٹری خارجہ کے بیان میں کیا لکھا ہے۔
پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ سیکرٹری خارجہ نے میٹنگ میں یہ بات کہی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ سیکرٹری خارجہ نے تحریری طور پر کیوں نہیں آگاہ کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا تفتیشی افسر نے حساس دستاویزات پر مبنی ہدایت نامہ پڑھا ہے، تفتیشی رپورٹ میں کیا لکھا ہے کہ سائفر کب تک واپس کرنا لازمی ہے، نہ پراسیکیوٹر کو سمجھ آ رہی ہے نہ تفتیشی افسر کو۔
قائمقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ کیا گواہان کے بیانات حلف پر ہیں۔
تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ گواہی حلف پر ہوتی ہے۔
جسٹس سردارطارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کے مطابق گواہ کا بیان حلف پر نہیں ہے، کیا اعظم خان کی گمشدگی کی تحقیقات کی ہیں۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ اعظم خان نے واپس آنے کے ایک ماہ بعد بیان دیا۔
قائمقام چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ ایک ماہ اعظم خان خاموش کیوں رہا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا اعظم خان شمالی علاقہ جات گئے تھے؟۔
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ اعظم خان کے مطابق ان پر پی ٹی آئی کا دباؤ تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عباسی صاحب ایسی بات نہ کریں جو ریکارڈ پر نہ ہو۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے سوال کیا کہ شہباز شریف نے کیوں نہیں کہا کہ سائفر گم گیا ہے، انہوں نے کس دستاویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیا تھا۔
رضوان عباسی نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سائفر پیش ہوا تھا۔
قائمقام چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا اصل سائفر پیش ہوا تھا؟ یہ کیسے ممکن ہے۔
پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ڈی کوڈ کرنے کے بعد والی کاپی سلامتی کمیٹی میں پیش ہوئی تھی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سائفر کیس میں سزائے موت کی دفعات بظاہر مفروضے پر ہیں،سائفر معاملے پر غیر ملکی قوت کو کیسے فائدہ پہنچا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا حکومت 1970 اور 1977 والے حالات چاہتی ہے، نگران حکومت نے آپ کو ضمانت کی مخالفت کرنے کی ہدایت کی ہے، ہر دور میں سیاسی رہنماؤں کیساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے،سابق وزیراعظم کے جیل سے باہر آنے سے کیا نقصان ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت سوال عام انتخابات کاہے،اس وقت سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نہیں عوام کے حقوق کا معاملہ ہے اور عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے،سابق وزیراعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں۔
یہ بتائیں سائفر دستیاب نہیں تھا تو سلامتی کمیٹی کے اجلاس کیسے ہوئے: جسٹس طارق مسعود
جسٹس سردارطارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے تو فیصلہ ہی کر دیا ہے ماشااللہ، اب خالی رسی ہی رہ گئی ہے، یہ بتائیں کہ سائفر دستیاب نہیں تھا تو سلامتی کمیٹی کے دو اجلاس کیسے ہوئے۔
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ سیکرٹری خارجہ کا بیان ہے انہوں نے اجلاس میں ماسٹر کاپی پیش کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اسد مجید کے بیان میں کہیں نہیں لکھا کسی دوسرے ملک کو فائدہ پہنچا ہے، عدالت سائفر پبلک کرنے کو درست قرار نہیں دے رہی لیکن بات قانون کی ہے، سزائے موت کی دفعات عائد کرنے کی بنیاد کیا ہے وہ واضح کریں، کسی گواہ کے بیان سے ثابت نہیں ہو رہا کہ کسی غیر ملکی طاقت کو فائدہ ہوا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں مقدمہ ان کیمرا چلے گا لیکن گواہان کے بیان پڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔
پراسیکیوٹررضوان عباسی نے مؤقف پیش کیا کہ بھارت میں سائفر لہرانے پر بہت واویلا ہوا۔
اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کل بلوچ فیملیز کیساتھ جو ہوا اس پر کیا کچھ واویلا نہیں ہوا ہوگا۔
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ دوطرفہ تعلقات متاثر ہونے سے دشمن کو فائدہ ہوگا۔
ڈی جی لاء نے کہا کہ پی ٹی آئی کی کاغذات نامزدگی چھیننے کی کوئی درخوست نہیں ملی۔
شعیب شاہین نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو کل 4 درخواستیں میں دے کر آیا ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اخبارات میں سب آ رہا ہے الیکشن کمیشن نے کیا کیا ہے؟ عثمان ڈار کی والدہ کیساتھ جو ہوا نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے کچھ نہیں کیا،بظاہر لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام درست ہے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ الیکشن شیڈیول جاری ہوچکا اب بھی ایم پی او کے آرڈر جاری ہو رہے ہیں،پی ٹی آئی امیدواروں کو کاغذات نہ دیے جا رہے ہیں نہ جمع کرانے دیتے ہیں۔
قائمقام چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن ایم پی او کے آرڈر کیوں نہیں رکوا رہا؟ ابھی حکم نامہ لکھ کر بھجواتے ہیں تمام شکایات کا جائزہ لیکر حل کریں۔
شعیب شاہین نے کہا کہ ریٹرننگ افسران کاغذات وصول نہیں کرتے تو الیکشن کمیشن کو جمع کرانے کی اجازت دی جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر سیاسی جماعتوں سے ملاقات کرے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتوں کو شکایات ہیں تو الیکشن کمیشن کام نہیں کر رہا، ایک سیاسی جماعت کو کیوں الگ ڈیل کیا جا رہا ہے؟ سب کیساتھ یکساں سلوک ہی لیول پلیئنگ فیلڈ ہے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کر لی۔عدالت نے دونوں کی 10،10 لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کےعوض ضمانت منظور کی۔
آج حقیقی معنوں میں سائفر کیس انجام کو پہنچ گیا: وکیل پی ٹی آئی
کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ آپ سائفر کیس کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے،حقیقی معنوں میں آج سائفر کیس انجام کو پہنچ گیا ہے اور کیس کی سماعت کے دوران پراسیکیوٹر عدالت کے سوالات کے جوابات دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔
انہوں نے کہا کہ آج سرکار ثابت نہیں کر سکی کہ یہ سزائے موت کا کیس ہے،سپریم کورٹ کے ایسے ویوز آگئے ہیں جنہیں ٹرائل کورٹ میں سرکار کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔