ایک نیوز: سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کیجانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران وکیل سلمان صفدر نے ریمارکس دیے ہیں کہ پرویز مشرف کے وراثنی ان اپیلوں کی قانونی اہمیت کو سمجھ نہیں رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل اور خصوصی عدالت کی حیثیت سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں چار رکنی بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ پرویزمشرف کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مشرف کی فیملی مایوس ہو چکی ہے،اپیلوں میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
چیف جسٹس نے سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ سلمان صفدر نے جواب دیا کہ میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی نمائندگی کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے وکیل اختر شاہ سے استفسار کیا کہ آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ وکیل اختر شاہ نے جواب دیا کہ میں نے اسی اپیل میں فریق بننے کی درخواست دی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سلمان صفدر کی معاونت کر دیں،کریمنل اپیل میں فریق نہیں بن سکتے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پرویز مشرف کی فیملی پہلے اپیلوں کی پیروی چاہتی تھی، اپیلیں کئی سال تک مقرر نہیں ہوئیں، پرویز مشرف اپنی زندگی میں اپیلیں مقرر ہونا نہ دیکھ سکے، آج مجھے ہدایات نہیں ہیں کہ اپیلوں کی پیروی کروں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ امید ہے آپ مجھے اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرائیں گے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ نا میری اور نا ہی درخواستگزار کی کوئی اس میں غلطی تھی، مشرف کی عمر 76سال تھی جب اپیل دائر کی، پرویز مشرف کے اہلخانہ سے 8سے 10بار رابطے کی کوششیں کی، مجھے مشرف کے اہلخانہ کی جانب سے اب تک کوئی ہدایات نہیں ملیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تو آپ کو پرویز مشرف کے وراثتی کی جانب سے نمائندہ تسلیم کر رہے تھے، اپیلوں میں دلچسپی نہیں تو ہم خارج کر دیں گے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ پرویز مشرف کے وراثتی اپیلوں کی قانونی اہمیت کو سمجھ نہیں رہے۔ پرویز مشرف کے وکیل نے واضح ہدایات لینے کیلئے مزید ایک ہفتے کہ مہلت مانگ لی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ پرویز مشرف کی فیملی سے دو ہی ہدایات لے سکتے ہیں، ایک تو وہ کہیں گے ہم خصوصی عدالت کے فیصلے سے مطمئن ہیں، دوسری صورت میں کہیں گے کہ وہ اپیل آگے چلانا چاہتے ہیں، آپ کی پرویز مشرف نے خود خدمات حاصل کی تھیں، آپ اپنے طور ہر اپیل چلانا چاہیں تو ہمیں اعتراض نہیں۔
سلمان صفدر نے کہا کہ میں ان اپیلوں کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ سلمان صفدر صاحب اس فیصلے کے مستقبل کی نسلوں پر اثرات ہوں گے، پرویز مشرف کی پینشن اور دیگر مراعات بھی متاثر ہوں گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمارے ساتھ ایک مجسٹریٹ والا برتاؤ نہ کریں۔ آپ نے ایک استدعا دینے کی زحمت نہیں کی۔ ہم کل شام نو بجے تک یہاں ایک اور معاملہ سننے کیلئے بیٹھے تھے، آپ التوا پر زور دے رہے ہیں تو ہم ملتوی کر دیں گے، ہم یہ التوا خوشی سے نہیں دیں گے، آپ بتائیں آپ کو کتنا وقت چاہیے؟
سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت نہیں چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ پہلے کہتے تھے کہ چار سال اپیلیں نہیں لگیں، اب التوا مانگ رہے ہیں، آپ ہفتے کے بعد یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ اپیل واپس لے لوں گا، آپ ورثاء کا پتہ بتائیں کہ جس پر نوٹس بھیجا جا سکے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پرویز مشرف کا ایڈریس ہی ان کی فیملی کا ایڈریس ہے۔
کورٹ سٹاف نے چک شہزاد والے پتے پر بھیجے نوٹس کی تعمیلی رپورٹ پڑھ کر سنا دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کی فیملی بیرون ملک ہے چک شہزاد کوئی مقیم نہیں۔
چیف جسٹس نے پرویز مشرف کی اپیل کی حد تک حکمنامہ لکھوادیا۔
حکمنامے کے مطابق سلمان صفدر کو پرویز مشرف کے ورثا سے رابطے اور ہدایات کی مہلت دی جاتی ہے، وکیل سلمان صفدر کو پرویز مشرف کے ورثا کے رابطہ نمبر بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بیان دیا کہ وفاقی حکومت لاہور ہائیکورٹ فیصلے کی حمایت نہیں کرتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فیصلے کے خلاف اس اپیل کی حمایت کرتے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی قبول ہو گا۔ اپیل کی حمایت کے الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا دفاع تو نہیں کر رہے نا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا دفاع بھی نہیں کر رہے۔