ویب ڈیسک:جسمانی چربی کی سب سےخطرناک قسم توندکی چربی ہوتی ہےکیونکہ اس کےاثرات جسم کےسب سےاہم حصےپرپڑتےہیں۔
تفصیلات کےمطابق ویسےتوموٹاپاخودایک بہت خطرناک بیماری ہےمگراس کی وجہ سےبےشماربیماریاں پھیلنےکاخطرہ بڑھ جاتاہےکیونکہ اس کےاثرات انسان کےجسم پرمرتب ہوتےہیں اوراس سےمختلف قسم کی بیماریاں حملہ آوارہونےکاخدشہ ہوتاہے۔
پیٹ اور کمر کے گرد جمع ہونے والی چربی کو طبی زبان میں ورسیکل فیٹ کہا جاتا ہے۔اس چربی کے نتیجے میں امراض قلب، ذیابیطس اور دیگر سنگین طبی مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اب ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ توند کی چربی سے دماغی تنزلی کا شکار بنانے والے الزائمر امراض کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
امریکا کے واشنگٹن یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ درمیانی عمر میں پیٹ اور کمر کے اردگرد چربی بڑھنے سے الزائمر امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق میں اس چربی کو دماغی تبدیلیوں سے منسلک کیا گیا۔اس تحقیق میں40 سے60 سال کی عمر کے54 صحت مند افراد کو شامل کیا گیا تھا۔
ان افراد کے جسمانی وزن، انسولین کی مزاحمت، جِلد کے نیچے چربی اور توند کی چربی جیسے عناصر کا تجزیہ کیا گیا جبکہ ایم آر آئی اور دیگر اسکینز بھی کیے گئے۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ درمیانی عمر میں توند نکلنے سے دماغ میں اس مخصوص پروٹین کی مقدار بڑھتی ہے جسے الزائمر امراض سے منسلک کیا جاتا ہے۔
یہ اثر خواتین کے مقابلے میں مردوں سے زیادہ ٹھوس نظر آیا جبکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ توند کی چربی سے دماغی ورم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ دماغی تنزلی کا باعث بننے والے الزائمر امراض کا ابھی کوئی مؤثر علاج موجود نہیں اور یہ آہستہ آہستہ مریض کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ توند کی چربی سے درمیانی عمر میں ہی ایسی دماغی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں جن سے الزائمر کی ابتدائی علامات کا خطرہ بڑھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل بھی جسمانی وزن کو ڈیمینیشا کا خطرہ بڑھانے سے منسلک کیا گیا ہے مگر اب تک یہ نہیں دیکھا گیا تھا کہ جسمانی چربی کس حد تک دماغی تنزلی میں کردار ادا کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ متعدد عناصر اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں، توند کی چربی سے پھیلنے والا ورم دماغ کو متاثر کرتا ہے۔
انہوں نے توقع ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق کے نتائج سے الزائمر کی جلد تشخیص میں مدد مل سکے گی۔
اس تحقیق کے نتائج نومبر کے آخر میں ریڈیولوجیکل سوسائٹی آف نارتھ امریکا کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پیش کیے جائیں گے۔