ایک نیوز:رمضان میں سحری کے دوران صحت کیلئے مفید غذائی نکات کون سے ہیں ماہرین نے بتادیا۔
رمضان کا آغاز ہونے والا ہے اور یہ مہینہ دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ صحت کے لیے بھی بہت اہم ہوتا ہے۔اس پورے مہینے میں لوگوں کی غذا اور نیند سے متعلق عادات تبدیل ہو جاتی ہیں اور عموماً 2 وقت کھانا کھایا جاتا ہے۔
پاکستان میں 23 یا 24 مارچ کو رمضان کا آغاز ہوگا اور روزے کا آغاز سحری سے ہوگا۔
سحری کے دوران غذاؤں کا انتخاب بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ دن بھر کے لیے ایندھن کا کام کرتی ہیں۔گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اس بار موسم بہت زیادہ گرم رہنے کا امکان تو نہیں مگر پھر بھی جسم میں پانی کی کمی یا ڈی ہائیڈریشن کا امکان روزے میں ہوتا ہے۔ روزانہ 7 سے 8 گلاس پانی پینے کے فوائد آپ کو دنگ کر دیں گے۔
غذائی نکات دن بھر میں جسمانی توانائی برقرار رکھنے کے ساتھ پانی کی کمی سے بھی تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔
سحری میں ایسی غذا کا انتخاب کریں جو صحت کے لیے مفید ہونے کے ساتھ ساتھ پیٹ پر بوجھ ثابت نہ ہو۔اس حوالے سے روٹی، انڈے، سبزیاں، دالیں اور چکن بہترین تصور کیے جا سکتے ہیں۔ افطار سے ہٹ کر سحری میں بھی ایک یا 2 کھجوریں کھانا مفید ہوتا ہے۔اس پھل میں کاپر اور میگنیشم سمیت متعددد غذائی اجزا ہوتے ہیں جبکہ اس میں موجود مٹھاس جسم میں گلوکوز کی شکل اختیار کرکے توانائی فراہم کرتی ہے۔ سحری میں دہی کو شامل کرنے سے غذا متوازن ہوتی ہے اور معدے کی تیزابیت کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔ دہی میں پانی کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہ روزے کے دوران ڈی ہائیڈریشن کا امکان بھی کم کرتی ہے۔
سحری میں ان دونوں پھلوں کو شامل کرنے سے جسم کو فائبر، وٹامن سی اور متعدد اینٹی آکسائیڈنٹس ملتے ہیں جبکہ ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔کھیرے، ٹماٹر یا تربوز جیسے زیادہ پانی والی غذاؤں سے دن بھر جسم میں پانی کی کمی کا امکان کم ہو جاتا ہے۔سحری میں مرچوں، نمک اور چینی کا کم از کم استعمال کریں کیونکہ ان کے زیادہ استعمال سے دن بھر پیاس زیادہ محسوس ہوگی۔خاص طور پر زیادہ نمک کے استعمال سے ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ بڑھتا ہے کیونکہ یہ سیال کو اپنے گرد اکٹھا کرلیتا ہے جس سے پیاس کا احساس بڑھتا ہے۔
اب یہ مقدار کتنی ہو، اس کے بارے میں فیصلہ آپ کو خود کرنا ہوگا مگر بہت زیادہ یا بہت کم نہ ہو۔نیند متاثر ہونے کے خیال سے سحری سے گریز کا فیصلہ نہ کریں کیونکہ اس وقت کی غذا دن بھر کی جسمانی ضروریات کے لیے اہم ہوتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔