اس صدارتی ریفرنس کے ذریعے وزیرِ اعظم کے مشورے پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کے اغراض و مقاصد‘ اس کی وسعت، فلور کراسنگ‘ ہارس ٹریڈنگ اور ووٹ بیچنے جیسے عمل پر سپریم کورٹ کی رائے مانگی گئی ہے۔ یہ صدارتی ریفرنس وزیراعظم عمران خان کے مشورے پر بھیجا گیا ہے، جس کی بنیاد تحریک انصاف کے سربراہ کی طرف سے ایسے 14 اراکین کو شوکاز نوٹس ہے، جس میں ان سے پارٹی سے انحراف سے متعلق وضاحت طلب کی گئی ہے۔
صدر عارف علوی نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ’ریفرنس کچھ ممبران پارلیمنٹ کے انحراف کی خبروں، ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر فائل کیا گیا ہے۔ریفرنس میں صدر عارف علوی نے فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ سے متعلق ماضی میں دو ججز کی رائے پیش کر کے سپریم کورٹ سے چار بنیادی سوالات کی تشریح کی درخواست کی ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ کیا اگر کوئی خیانت کرتا ہے اور وفاداری تبدیل کرکے انحراف کرتا ہے تو کیا ایسی صورت میں اس کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی ہے اور اسے ڈی سیٹ کیا جا سکتا ہے ‘جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کیلئے وسیع مشاورت کے بعد آئین میں آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا ہے جس کے تحت ایسے رکن کو تاحیات نااہلی قرار دیا جا سکتا ہے تاکہ اس قسم کی دھوکہ دہی، غیرآئینی اور غیراخلاقی عمل میں شریک ارکان میں ڈر پیدا کیا جاسکے۔ کیا ایسے غیراخلاقی عمل میں شریک منحرف اراکین کے ووٹ کی کوئی وقعت باقی رہ جاتی ہے اور کیا ایسے اراکین کو ووٹ دینے کا حق دیا جا سکتا ہے؟۔ ایسا رکن جو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک نہیں کہتا اور اپنی نشست سے استعفیٰ نہیں دیتا اور بعد میں اپیل میں سپریم کورٹ سے بھی اگر اسے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے اور صادق اور امین نہ رہے تو پھر کیا ایسے میں اس رکن کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا؟۔ موجودہ آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے کیا ایسے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں کہ جس سے انحراف، فلور کراسنگ اور ووٹ بکنے جیسے عمل کو روکا جا سکے۔
رائے مانگنے کے علاوہ صدارتی ریفرنس میں فلورکراسنگ، ہارس ٹریڈنگ اور ووٹ کی فروخت جیسے عوامل کے جمہوری عمل پر پڑنے والے ’نقصانات‘ پر عارف علوی نے اپنی رائے دی ہے۔ ان کے مطابق جب تک اس طرح کی پریکٹسز کو ختم نہیں کیا جاتا تو اس وقت تک صحیح جمہوری عمل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔واضح رہے کہ تحریک انصاف کے ان اراکین نے اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر عمران خان کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
صدارتی ریفرنس میں انحراف کے اس عمل کو ملک کی سیاست میں کینسر قرار دیا ہے اور اس کینسر کے مستقل علاج سے متعلق بھی ججز کی توجہ دلائی گئی ہے۔ وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ یہ ریفرنس سپریم کورٹ کو یہ موقع دے رہا ہے کہ ’ملک میں جاری ہارس ٹریڈنگ، موقع پرستی اور کرپشن کے ڈرامے ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکیں۔ دوسری جانب سپریم کورٹ وکلا کی نمائندہ تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی ایک آئینی درخواست پر بھی سماعت کر رہی ہے، جس میں عدالت سے تحریک عدم اعتماد کے معاملے میں کارکنان میں تصادم کے خطرے کو روکنے کی ہدایات دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ اس درخواست کی پہلی سماعت پر ہی عدالت نے یہ واضح کیا کہ وہ سیاسی معاملات اور پارلیمان کے عمل میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔