سوات، مبینہ توہین مذہب پر ایک شخص کو آگ لگا کر جلا دیا گیا 

Jun 21, 2024 | 14:48 PM

ایک نیوز: سوات میں شہریوں نے اپنی ہی عدالت لگا لی،مبینہ توہین مذہب پر ایک شخص کو آگ لگا کر زندہ جلا دیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق ڈی پی او سوات کا کہنا ہے کہ مدین کے علاقے میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں علاقہ مکینوں نے شہری پر تشدد کیا اور اسے برہنہ کر کے سڑکوں پر گھسیٹا، پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے تھانے منتقل کیا تو لوگوں نے تھانے کو بھی آگ لگا دی اور توڑ پھوڑ کی، مشتعل افراد ملزم کو تھانے سے نکال کر اسے جلا ڈالا۔

پولیس کے مطابق تشدد اور جلائے جانے سے ملزم جان کی بازی ہار گیا جبکہ پولیس سٹیشن پر مشتعل مظاہرین کے حملے میں 8 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخواعلی امین گنڈاپور نے ناخوشگوار واقعے پر اظہار افسوس کیا اور نوٹس لیتے ہوئے انسپیکٹر جنرل پولیس سے ٹیلیفونک رابطہ کر کے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی، انہوں نے ناخوشگوار واقعے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے شہریوں سے پرامن رہنے کی بھی اپیل کی ہے۔

واقعے کے بعد کالام سمیت دیگر علاقوں کے ہوٹلز بند کر دیئے گئے، سیاحوں نے رات گاڑیوں میں بیٹھ کر گزاری۔

بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے سوات مدین واقعے کا نوٹس لیا ہے،معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہے،تمام محرکات سامنے لاکر قانون کے مطابق کارروائی کی جائیگی، سوات انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے،وزیراعلی نے آئی جی پولیس سے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے،عوام سے پرامن رہنے کی اپیل ہے۔

 عالم دین ڈاکٹر راغب نعیمی کا کہنا تھا کہ سوات میں شہریوں کی جانب سے اپنی عدالت ہی لگا لی گئی ۔اسلام اور آئین میں کسی شخص کو ماورائے عدالت پکڑ کر جلانے یا قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے،ملک میں قانون اور عدالتیں موجود ہیں،سزادیناان کاکام ہے،ایسے واقعات کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے۔

عالم دین حماد لکھوی  کا کہنا ہے کہ اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے،پولیس نے متاثرہ شخص کوگرفتار کیا تومشتعل شہریوں نے تھانے کو آگ لگا دی ،قوانین موجود ہیں،سزا دینا عدالتوں کاکام ہے،کسی بھی شخص کو سزا دینا کسی گروہ کا کام نہیں ہے۔  

مزیدخبریں