صدرمملکت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس تعینات کردیا

صدرمملکت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس تعینات کردیا
کیپشن: The President appointed Justice Qazi Faiz Isa as Chief Justice

ایک نیوز: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی  بطور چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی  کر دی۔

تفصیلات کے مطابق تعیناتی کا اطلاق 17 ستمبر 2023 ء سے جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ سے ہوگا۔موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان ، جسٹس عمر عطا بندیال ، آئین کے آرٹیکل 179 کے تحت  16 ستمبر 2023ء کو ریٹائرمنٹ کی عمر حاصل کرلیں گے۔

صدر مملکت نے چیف جسٹس کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے تین کے تحت کی۔ صدر مملکت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے 17 ستمبر 2023 ء کو عہدے کا حلف لیں گے۔

وزارت قانون کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ عمومی طور پر کسی بھی چیف جسٹس کی مدت ملازمت پورے ہونے سے ایک ماہ قبل نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کی سمری صدر مملکت کو بھجوائی جاتی ہے لیکن اس مرتبہ انھیں واضح ہدایات دی گئیں تھیں کہ تین ماہ پہلے نئے چیف جسٹس کی سمری صدر مملکت کو بجھوا دی جائے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تحریک پاکستان کے سرگرم رکن قاضی محمد عیسیٰ کے صاحبزادے ہیں۔

ان کے والد کا شمار بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔

قاضی محمد عیسیٰ صوبہ بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم رہنما اور پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کرنے کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئے اور یہاں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔

انہوں نے قانون کی تعلیم لندن سے حاصل کی اور پھر وطن واپس آ کر وکالت شروع کی۔

وہ بطور وکیل تقریباً 27 سال ملک کی مختلف عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 5 اگست 2009 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔

انہیں 5 ستمبر 2014 میں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔

انہوں نے نومبر 2007 میں سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی اور عبوری آئینی حکم کے تحت ججز کے حلف لینے کی مخالف کی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس عرصے کے دوران کئی اہم مقدمات میں انتہائی اہم فیصلے تحریر کیے۔

سنہ 2012 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میمو گیٹ کمیشن کی سربراہی بھی کی۔

میمو گیٹ اسکینڈل میں اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی پر الزام تھا کہ انہوں نے پاکستان میں فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے امریکہ سے سول حکومت کی مدد کی درخواست کی تھی۔

جسٹس فائز عیسٰی نے سپریم کورٹ کو پیش کی جانے والی کمیشن رپورٹ میں حسین حقانی کو قصوار ٹھہرایا تھا۔

8 اگست 2016 میں کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد اس کے حقائق جاننے کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا جس کی سربراہی بھی جسٹس قاضی فائز عیٰسی کو سونپی گئی۔

انکوائری کمیشن نے اپنی پیش کردہ رپورٹ میں خود کش دھماکے کو حکومت کی غفلت قرار دیا تھا۔

انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو متنبہ کیا کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی ضروری ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے دسمبر 2017 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف نیب کی اپیل کو مسترد کر دیا تھا۔

نیب نے حدیبیہ پیپر مل کیس میں لاہور کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کو ایک ارب 20 کروڑ روپے کی کرپشن کے الزام سے بری کر دیا تھا۔

2018 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اختلافات کے باعث اپنی سربراہی میں قائم اس تین رکنی بینچ سے نکال دیا تھا جو آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت ایک کیس کی سماعت کر رہا تھا۔

اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ ان درخواستوں کی سماعت کی مجاز ہے جو عوامی نوعیت کی ہوں اور اس میں بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ بھی درپیش ہو۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے اس اقدام پر اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے بینچ دوبارہ تشکیل دینے کے فیصلے کو عجلت اور عدالتی نظام کے لیے برا شگون قرار دیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیض آباد دھرنا کیس میں ایک فیصؒہ تحریر کیا جو بہت سی مقتدر قوتوں کو ناگوار گزرا تھا۔

فروری 2017 میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے داخلی علاقے فیض آباد میں مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے سے عوام کو درپیش مشکلات پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا، جس کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال کیس کی سماعت کے بعد جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ تحریر کیا تھا۔

اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت وقت کے علاوہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے دھرنے میں خلاف قانون کردار پر سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

فیصلے میں حکم دیا گیا تھا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا پرچار کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

فیصلے میں چیف آف آرمی اسٹاف کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ان ماتحت اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ فوج کسی ایک جماعت، سیاست دان یا تنظیم کو سپورٹ کر رہی ہے۔

اس فیصلے کے خلاف وزارت دفاع کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست دائر کی جا چکی ہے اور عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ فیصلے میں سے فوج اور خفیہ ایجنسی سے متعلق سطور خارج کی جائیں۔