ایک نیوز: بھارت میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال، صحافتی تنزلی اور بڑھتی انتہا پسندی پر امریکی کانگریس اور سینٹ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی سینیٹرز اور کانگریس اراکین نے امریکی صدر بائیڈن کو بھارتی وزیر اعظم مودی کے ساتھ ملاقات کے دوران بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر خط لکھ دیا ہے۔خط پر سینیٹر کرس ہالن اور کانگریس رہنما پرا ملا جیا پال کی سرکردگی میں 75سے زائد سینیٹرز اور کانگریس اراکین کے دستخط ہیں ۔
خط کےمتن میں کہا گیا ہےکہ امریکا کو انسانی حقوق پر دوست اور دشمن میں تفریق نہیں کرنی چاہیے۔متعدد غیر جانبدارانہ اور مستند ذرائع بھارت میں سکڑتی سیاسی آزادی، مذہبی عدم برداشت اور صحافتی تنزلی کی تصدیق کرتے ہیں۔ بھارت انٹرنیٹ بندش میں پچھلے 5سالوں سے سرِ فہرست ہے۔
خط میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی انسانی حقوق اور مذہبی آزادی پر مبنی رپورٹس اور رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز کے تحفظات کا بھی ذکر ہے۔ خط میں کہاگیا ہے کہ گاندھی کا بھارت مودی کے انتہا پسند ہندوستان میں تبدیل ہو رہا ہے۔
کانگریس رکن رشیدہ طلائب نے مودی کے کانگریس سے خطاب کو امریکی تاریخ کا شرمناک باب قرار دے دیا ہے۔مارچ2023میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بھی انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال کو سنگین قرار دیا گیا تھا۔گزشتہ سال مودی کے خلاف ڈاکومنٹری نشر کرنے پر بی بی سی کے دفاتر پر بھی چھاپے مارے گئے تھے۔2020میں بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شدید حکومتی دباؤ کے مدِ نظر بھارت میں کام بند کر دیا تھا ۔2014سے مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق بھارت140سے161ویں نمبر پر آگیا ہے۔2005میں امریکی حکومت نے مودی کو گجرات فسادات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا ئی تھی۔