بھارتی گلوکار اور مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما سدھو موسے والا کو 29 مئی کو بھارتی پنجاب میں قتل کردیا گیا تھا۔
ملزمان نے موسیقار پر کم از کم 30 گولیاں فائر کیں، انہیں تشویشناک حالت میں مانسا کے سول ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دیا۔
28 سالہ نوجوان موسیقار بھارت اور بیرون ملک خصوصاً کینیڈا اور برطانیہ میں پنجابی برادریوں میں بےحد مقبول تھے۔
اسپیشل پولیس کمشنر ایچ ایس دھالیوال نے دہلی میں صحافیوں کو آگاہ کیا کہ مغربی ریاست گجرات میں 3 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے.
پولیس نے ملزمان کے قبضے سے گرنیڈ، ایک گرنیڈ لانچر، ایک رائفل، الیکٹرک ڈیٹونیٹرز اور پستول برآمد کئے۔
مقامی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ کینیڈا میں مقیم گینگسٹر گولڈی برار نے سکھ موسیقار کے قتل کی منصوبہ بندی کی ذمہ داری قبول کی تھی اور واقعے کی صبح حملہ آوروں سے رابطے میں تھا۔
’ہندوستان ٹائمز‘ اخبار نے ایک پولیس افسر کے حوالے سے بتایا کہ گولڈی برار نے واقعے کے روز ایک شوٹر کو فون کیا اور اسے سدھو موسے والا کا قتل یقینی بنانے کا حکم دیا‘۔
پولیس افسر نے بتایا کہ ’قاتل کو ہدایت دی گئی تھی کہ اگر بندوقوں سے کام نہ بنے تو اسے دھماکے میں مار ڈالو‘۔
سدھو موسے والا نے کئی مشہور گانوں سے شہرت حاصل کی جن میں انہوں نے حریف موسیقار اور سیاست دانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا،
ان گانوں میں انہوں نے خود کو ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا جو اپنی برادری کے فخر کے لیے لڑتا ہے، انصاف فراہم کرتا ہے اور دشمنوں کو مار گراتا ہے۔
انہیں اپنی میوزک ویڈیوز کے ذریعے بندوق کلچر کو فروغ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ باقاعدگی سے اسلحے کے ساتھ پوز کرتے تھے۔
ان کے قتل نے بھارتی پنجاب میں منظم جرائم کو بھی نمایاں کردیا، کئی مبصرین کا خیال ہے کہ ریاست میں پرتشدد واقعات اور غیرقانونی ہتھیاروں کے استعمال میں اضافے کا تعلق ہیروئن اور افیون سمیت دیگر منشیات کی تجارت سے ہے۔