ایک نیوز: پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی نے ہاتھ ملالیا۔ عدالت میں دونوں جماعتوں کے سینئر رہنما بغلگیر ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق ہتک عزت کیس کی سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ عدالت میں ایک دوسرے سے بغلگیر ہو گئے۔
سعید غنی کی جانب سے اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ کے خلاف ہتک عزت کیسز کی سماعت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں ہوئی۔ سعید غنی اور حلیم عادل شیخ اپنے اپنے وکلا کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
جج نے سعید غنی سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا آپ نےحلیم عادل شیخ کےخلاف ہتک عزت کا کیس کیا ہے؟ کیا پیسے عزت سے بڑھ سکتے ہیں؟ آپس میں مل بیٹھ کر صلح کر لیں۔
سعید غنی کا کہنا تھا یہ معافی نامہ لکھ کر دیں تو کیس ختم کرنے کے لیے تیار ہوں، جس پر حلیم عادل شیخ کے وکیل نے کہا مل بیٹھ کر بات کے لیے تیار ہیں مگر معافی نامہ لکھ نہیں دیں گے۔
عدالت نے سعید غنی اور حلیم عادل کو ہدایت کی کہ دل بڑا کریں اور ایک دوسرے کو معاف کردیں۔ بعد ازاں سعید غنی نے کمرہ عدالت میں حلیم عادل شیخ کو گلے سے لگا لیا۔
پیپلز پارٹی کی ایک ٹیم کورٹ اور ایک ٹیم پولیس کے ذریعے ہمیں مصروف رکھتی ہے: حلیم عادل
رہنما پی ٹی آئی حلیم عادل شیخ کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا ہمارے پاس صرف زبان ہوتی ہے اسے بھی جرم بنا دیا گیا ہے، میری بچی کی شادی ہوتی ہے اور میرےگھر پولیس گھس آتی ہے، پیپلز پارٹی کی ایک ٹیم کورٹ اور ایک ٹیم پولیس کے ذریعے ہمیں مصروف رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد سعید غنی کے بھائی کے فارم 11, 12, 13 میں فرق ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، کراچی میں بلدیاتی الیکشن کو ہم نہیں مانتے، ہماری 85 سے 100 کے درمیان سیٹیں چھینی گئی ہیں، الیکشن کمشنر کو استعفا دینا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ راستے کو اختیار کرتے ہوئے دونوں آپس میں صلح کر لیں: عدالت
کچھ دیر کے وقفے کے بعد حلیم عادل شیخ اور سعید غنی اپنے وکلاء کے ہمراہ دوبارہ عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ دونوں کی کوئی خاندانی لڑائی یا کوئی مسئلہ ہے تو بتائیں، جس پر سعید غنی نے کہا کہ حلیم عادل شیخ نے پارٹی پر نہیں مجھ پر ذاتی حملے کیے۔
عدالت نے کہا کہ یقیناً زخم کا گھاؤ بھر جاتا ہے لیکن زبان سے پہنچائی گئی تکلیف ختم نہیں ہوتی، لیکن اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ راستے کو اختیار کیا جائے اور دونوں آپس میں صلح کر لیں۔
حلیم عادل شیخ نے کہا میرے الفاظ سے یقیناً سعید غنی کو تکلیف ہوئی ہو گی، یہ حکومت میں ہیں اور میں اپوزیشن میں ہوں، حکومت کو لحاظ کرنا چاہیے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیاست دانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، آپ بیٹی کی شادی کا کارڈ سعید غنی کو دیتے تو وہ بھی آتے۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا میرا ارادہ یہی تھا مگر ان لوگوں نے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا، میں نے زندگی بھر چھالیہ نہیں کھائی اور انہوں نے منشیات فروشوں کا سرپرست بنا دیا۔
سعید غنی نے کہا کہ مجھ پر جو الزامات لگائے وہ ثابت کریں میں کیس دائر کرنے پر معافی مانگ لوں گا، اگر الزامات ثابت نہیں ہوتے تو یہ لوگ معافی مانگیں۔
حلیم عادل شیخ کا کہنا تھا عوام کی بات کرنے پر میرے خلاف 28 مقدمات بنائے گئے، جس پر عدالت نے کہا تنقید ضرور کریں مگر حکومت کو بھی کام کرنے دیں، ایشوز کو اٹھائیں مگر بےبنیاد الزامات سے پرہیز کریں۔
رہنما پاکستان تحریک انصاف کا کہنا تھا ہمارا کام حکومتی خامیوں کی نشاندہی کرنا ہے۔
فریقین کے وکلاء نے کہا کہ ہمیں مشاورت کے لیے مہلت دی جائے، جس پر عدالت نے کہا آپس میں مشاورت کرکےصلح کرلیں اس سے کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہو گا، عدالت نے کیس کی مزید سماعت 16 فروری تک ملتوی کر دی۔