فاطمہ قتل کیس،ملزم پر ڈارک ویب کا رکن ہونے کا الزام

فاطمہ قتل کیس،ملزم پر ڈارک ویب کا رکن ہونے کا الزام

ایک نیوز: فاطمہ قتل کیس کے ملزم اسد شاہ پر ڈارک ویب کا رکن ہونے کا الزام ہے۔

رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت سندھ نے انکشاف کیا ہے کہ مقتولہ فاطمہ فرڑو کا علاج کرنے والا ڈسپنسر امتیاز میراسی نائب قاصد ہے، متوفی بچی کے وکیل نے دعویٰ کیا ہے کہ مرکزی ملزم اسد شاہ ڈارک ویب کا رکن ہے۔

گزشتہ ہفتے رانی پور میں بااثر پیر کے گھر جنسی زیادتی ،تشدد سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ فاطمہ کے مبینہ قتل میں گرفتار مرکزی ملزم اسد شاہ کو مقامی عدالت میں پیش کردیا گیا۔پولیس نے اسد شاہ کی حویلی سے بازیاب ہونے والی بچیوں اور تین خواتین کو بھی عدالت میں پیش کیا جبکہ متوفی بچی فاطمہ فرڑو کے والدین اور وکلا کی ٹیم بھی پیش ہوئے۔مرکزی ملزم سید اسد شاہ 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی حوالے تھا۔

ملزم اسد شاہ ڈارک ویب کی ویڈیوز ریکارڈ کرکے بیچتا ہے
فاطمہ کے والدین کے وکیل میر امتیاز میمن کاکہنا ہےکہ اطلاعات ملی ہیں کہ اسد شاہ ڈارک ویب کا رکن ہے، یہ لوگ بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو بنا کر اپلوڈ کرتے ہیں، اور یہ ڈارک ویب کی ویڈیوز ریکارڈ کرکے بیچتا ہے۔وکیل نے دعویٰ کیا کہ پولیس ملزم اسد شاہ کو رات کے وقت بنگلے میں رکھتی ہے اور صبح ہوتے ہی عوام کے ڈر سے اسے تھانے لایا جاتا ہے۔

فاطمہ کی والدہ کا بیان
متوفی فاطمہ کی والدہ  کا کہناہےکہ میں اس قاتل پیر کو کبھی بھی نہیں بخشوں گی، اس کو پھانسی تک پہنچاکر دم لوں گی، اب کوئی ڈر نہیں، اگر جان بھی چلی جائے تو بھی پرواہ نہیں۔

 بچی کو دوائیں دینے والا شخص ڈسپنسر نہیں نائب قاصد ہے
تشدد سے جاں بحق ہونے والی بچی فاطمہ کا حویلی کے اندر علاج کرنے والے امتیاز میراسی نامی شخص کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ وہ بچی کو دوائیں دینے والا شخص ڈسپنسر نہیں بلکہ نائب قاصد ہے۔جس کی محکمہ صحت سندھ نے تصدیق کی ہے۔

ڈسپنسر گرفتار
دو روز قبل پولیس نے ملزم اسد شاہ سے تفتیش کے بعد رانی پور اسپتال کا ڈسپنسرگرفتارکیا تھا۔پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈسپنسر امتیاز میراسی فاطمہ کا گھر پرعلاج کرتا تھا۔ایف آئی آر میں نامزد ملزم اسد شاہ نے پولیس کو بتایا کہ رانی پور سرکاری اسپتال کا ڈسپنسر علاج کیلئے آتا رہا تھا۔

بچی سے زیادتی کا انکشاف
متوفی 10 سالہ فاطمہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ  میں بتایا گیا ہے کہ لاش کے ڈی کمپوزیشن کا عمل ابتدائی مراحل میں تھا۔ چہرے کے دائیں جانب کے حصے پر نیل کے نشانات تھے جبکہ ناک اور کانوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ فاطمہ کی دونوں آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، بچی کی زبان اس کے دانتوں میں دبی ہوئی تھی۔ اس کی پیشانی کی دائیں جانب چوٹ کے نشانات تھے، سینے کے دائیں جانب اوپر کی طرف بھی زخموں کے نشان تھےاور ٹیشوز کے نیچے خون بھی جمع تھا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بچی کمر کے درمیان 5 سے 2 سینٹی میٹر زخم کے نشان تھے، کمر کے نچلی جانب بھی 6 سینٹی میٹر زخم کا نشان تھا، کمر کے بائیں جانب 2 سینٹی میٹر، ہاتھ سے لیکر بازو تک 10سینٹی میٹر اور دائیں ہاتھ پر بھی 6 سینٹی میٹر کے زخم کا نشان تھا۔فاطمہ کے بائیں ہاتھ میں سوراخ کرنے کے نشان بھی تھے اور تمام زخم موت سے پہلے کے ہیں۔ بچی کے سر پر بھی چوٹیں ہیں جبکہ رپورٹ کے مطابق بچی سے زیادتی کی گئی ہے۔