ایک نیوز: مُودی کے ہندوستان میں حوا کی بیٹی پر زمین تنگ ہوگئی۔ خواتین کے حقوق ،استحصال اور معاشرتی تفریق میں بھارت سب سے آگے۔ آبادی کا 49فیصد حصہ ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی 11فیصد, ملازمت میں 19فیصد اور پولیس میں صرف 7 فیصد ہے۔
شرح خواندگی میں خواتین اور مَردوں کا فرق20فیصد جبکہ پیشہ وَر خواتین کی تنخواہ مَردوں سے20فیصد کم ہے۔ 2010سے 2022کے دوران پیشہ ور خواتین کی تعداد میں7فیصد گراوٹ ہوئی۔
2022میں کُل6لاکھ جرائم میں سے71فیصد بھارتی خواتین کے خلاف تھے۔2021 کی نسبت 2022 میں خواتین کے خلاف جرائم میں15.3فیصد اضافہ ہوا۔ 2018میں بھارت خواتین کے لئے خطرناک ترین ممالک میں سرِفہرست تھا۔
بھارتی خواتین کو درپیش مسائل میں جنسی زیادتی، ہراسگی اور کم عمری میں جَبری شادی کے مسائل کا سامنا ہے۔2021 میں31677زیادتی ،76263اغواء اور30856گھریلو تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق روزانہ سفر کرنے والی خواتین میں سے80فیصد کو جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں روزانہ خواتین سے86زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں جن میں سے دہلی 6واقعات کے ساتھ سرِفہرست ہے۔
یونیسیف کے مطابق بھارت میں27فیصد لڑکیوں کی شادی18سال سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ بھارت میں15فیصد شادی شدہ خواتین کو جہیز کے مطالبات پر طلاق کا بھی سامنا ہے۔ 2017 میں7ہزار خواتین کو جہیز نہ دینے پر قتل کر دیا گیا۔
13فروری2023کو کان پور میں گھر خالی نہ کرنے پر ماں اور بیٹی کو ریاستی اہلکاروں کی جانب سے زندہ جلا دیا گیا۔ 2021 میں ماہانہ14تیزاب گردی کے واقعات رونما ہوئے لیکن کسی بھی مجرم کو سزا نہیں ہوئی۔
2012میں زیر تعلیم 23سالہ ڈاکٹر کو دہلی میں چلتی بس میں اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ 2020 میں دلت خاتون کے ساتھ اترپردیش میں زیادتی اور قتل کا واقع پیش آیا لیکن عدالت نے چاروں مجرمان کو باعزت بری کر دیا۔
2014میں جرمن خاتون،2018میں روسی خاتون اور2022میں برطانوی سیاح خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کے واقعات بھی پیش آئے۔ سیاح خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات کے پیشِ نظر2019میں امریکہ نے اپنے شہریوں کو بھارت سفر کرنے کے خلاف وارننگ بھی جاری کی تھی۔
خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم معاشرتی تفریق اور ہتک آمیز رویہ بھارتی نام نہاد جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔