وفاقی کابینہ سے منظور آئینی ترامیم کے عدلیہ سے متعلق نکات سامنے آگئے

Oct 20, 2024 | 17:29 PM

ایک نیوز:مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں 26 ترامیم شامل ہیں۔
مسودے میں آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز شامل،جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کریگا، آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے، آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔
 آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے،آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا،آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا، پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔
 کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا، چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تجویز پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی، پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے۔ 
چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی، چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کرنے کی تجویزکی گئی ہے، آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی،آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔ 
ججز تقرری کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا،سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا، چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں چار سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے،وفاقی وزیر قانون اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے،کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا۔
دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے،سینٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی دو سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا،مسودے میں آرٹیکل 38 میں ترمیم کی تجویز ،جس حد تک ممکن ہو سکے یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائے گا،آرٹیکل 48 میں ترمیم کی تجویز ، وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت، ٹریبیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔ 

مزیدخبریں