ایک نیوز نیوز:سندھ میں بد ترین سیلاب کی وجہ سے چاول کی فصل میں ایک ماہ کی تاخیر ہوئی ۔ چاول برآمد کنندگان کی مشکلات میں ا ضافہ ہوگیا۔
ملک کی تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کے باعث سندھ میں پیداوار 30 فیصد تک کم ہونے کے خدشے کے پیش نظر چاول برآمد کنندگان مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ اس کے علاوہ برآمد کنندگان کو بھارت سے سخت مسابقت کا بھی سامنا ہے جو غیر ملکی خریداروں کو کم قیمت کی پیشکش کر رہا ہے۔ چاول برآمد کنندگان کی نمائندہ تنظیم رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (آر ای اے پی) کے چیئرمین چیلا رام کیولانی نے کہا کہ گزشتہ مالی سال (22-2021) میں پاکستان نے 48 لاکھ 80 ہزار ٹن چاول مختلف ممالک کو برآمد کرکے 2 ارب 50 کروڑ ڈالر حاصل کیے ہیں۔یہ اعداد و شمار گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 لاکھ 90 ہزار ٹن زیادہ تھے جس سے ملک کو 2 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ حاصل کرنے میں مدد ملی۔
چیلا رام کیولانی کاک کہنا ہے کہ میرے خیال میں سندھ میں فصل کو پہنچنے والے نقصان کے پیش نظر رواں مالی سال (23-2022) میں چاول کی برآمدات 35 لاکھ ٹن تک گر سکتی ہیں جب کہ انہوں نے پنجاب کے اعداد و شمار پر اطمینان کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں چاول کی فصل اکتوبر میں آنی تھی لیکن حالیہ بدترین تباہ کن سیلاب کی وجہ سے اس میں ایک ماہ کی تاخیر ہوئی۔گزشتہ سال ملک میں چاول کی پیداوار 85 لاکھ ٹن تھی جب کہ مقامی کھپت 30 لاکھ ٹن تھی۔شعبے کو حاصل مراعات سے متعلق چیئرمین آر ای اے پی نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ وزیر خزانہ نے گزشتہ ماہ برآمدی شعبے کے لیے بڑے ریلیف کا اعلان کیا اور چاول برآمد کنندگان کو نظر انداز کیا گیا۔پاکستان شماریات بیورو کے مطابق باسمتی چاول کی برآمدات جولائی سے اکتوبر کے عرصے میں ایک لاکھ 73 ہزار 684 ٹن پر آگئی جو کہ 2 لاکھ 29 ہزار 791 ٹن تھی، یہ کمی مقدار میں 24.4 اور مالیت کے لحاظ سے 8.4 ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی چاول کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر فیصل انیس مجید نے برآمدات کم ہونے کی صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی خریدار بھارت کا رخ کر رہے ہیں جہاں چاول کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں 80 سے 100 ڈالر فی ٹن تک کم ہیں۔