ایک نیوز: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی 9 مئی کو گرفتاری کے بعد پاکستان بھرمیں مظاہرے شروع ہوئے تو سوشل مظاہروں کی تصاویر بھر گیا۔
غیرملکی میڈیا ادارے ڈی ڈبلیو کی جانب سے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مظاہروں کی جو تصاویرسوشل میڈیا پر دیکھیں ان میں سے کچھ دُرست نہیں تھیں۔ایک تصویرسوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے کہ جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک تنہا خاتون درجنوں پولیس اہلکاروں کا سامنا کرنے کے لئے کھڑی ہےاور اس تصویر کو کثیرتعداد میں شئیر بھی کیا گیا ہے۔
مذکورہ تصویر اُس وقت وائرل ہوئی جب پی ٹی آئی کی ایک کارکن طیبہ راجہ پولیس سے مقابلہ کررہی تھیں اور بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تصویر ایک ٹویٹر صارف نے بنائی ہے جس نے“@kursed“ اس اکاؤنٹ سے ٹویٹ کیا جو ویڈیو پر مبنی تھی۔
دوسری ویڈیو
ایک ٹوئٹراکاؤنٹ نے ویڈیو ٹوئٹ کی جس میں صارف کا کہنا ہے کہ کشمیر ہائی وے کے مقام پر اسلام آباد کی جانب خیبر پختونخواہ سے آنے والا بڑا ہجوم پولیس کی حٖفاظتی قطار کو توڑ کرداخل ہورہا ہے۔
واضح رہے کہ یہ ویڈیو پاکستان کی نہیں ہے دراصل یہ ویڈیو ہنڈوران کے تارکین وطن کی ہے یہ ان کا ایک گروپ ہے اور یہ ویڈیو جنوری2021 کی ہے ۔
تیسری پوسٹ
تیسری پوسٹ میں دیکھایا گیا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مظاہروں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ایک شخص مارا گیا ہےاورعوام کی بڑی تعداد اس شخص کا مبینہ طور پر جنازے اٹھائے ہوئے ہے۔ٹوئٹ میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان کی رہائی ان شہیدوں کی قربانیاں ہیں اور انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ٹوئٹ فواد خان دیرکی جانب سے کیا گیا ہے لیکن اس ویڈیوکا پی ٹی آئی کے احتجاج سے کوئی تعلق نہیں بلکہ پاکستان کے علاقے پاراچنار کی ہے جہاں فائرنگ سے چاراساتذہ سمیت 6 افراد جاں بحق ہوگئے تھے