ایک نیوز:وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت6گھنٹے تک جاری رہنے والے اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں عمران خان کے متعلق آر یاپار کی تجویز،اندرونی کہانی سامنے آگئی۔اجلاس کا اعلامیہ بھی جاری کردیاگیا۔
وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت سیاسی اورقومی امورپراہم مشاورت ہوئی۔سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اجلاس میں مختلف تجاویز پیش کی گئیں۔ ن لیگ اور جے یو آئی ف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے حق میں نہیں۔
اجلاس کے دوران شرکانےعمران خان سے متعلق دوٹوک پالیسی اپنانے کی رائے دی۔
شرکانے کہا کہ حکومتی رٹ کی عملداری کیلئے عمران خان کو کٹہرے میں لاناہوگا۔اجلاس میں عدلیہ کے کردارپرنظرثانی کو بھی ناگزیرقرار دیاگیا۔
شرکانے کہا قانون سب کیلئے برابرہے تو عمران خان بالاترکیوں ہے؟
اجلاس میں پنجاب اور کے پی کے میں ا نتخابات کی صورتحال کابھی جائزہ لیاگیا۔
لاہور اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کارکنوں کی پرتشدد کارروائیوں پربھی بریفنگ دی گئی۔
اجلاس میں بریفنگ دی گئی کہ انتشارپھیلانے والے تحریک انصاف کے کارکن دیہاڑی بربلائے گئے تھے،گرفتار افراد کے دوران تفتیش اہم انکشافات سے بھی آگاہ کیاگیا۔
حکومت نے ملک میں افراتفری پھیلانے والے عناصرسے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔شرپسندی سے باز نہ آنیوالوں کیخلاف کارروائی کیلئے فری ہینڈ دینے کا عندیہ،سی ۔سی پی او لاہور نے زمان پارک کی صورتحال پربریفنگ دی۔
ذرائع کے مطابق اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں مریم نواز سمیت دیگر رہنماؤں نے آئندہ کی سیاسی حکمت عملی پر اپنی اپنی تجاویز پیش کیں۔ مریم نواز نے تجویز پیش کی کہ اب آر یاپار والے فیصلے کرنا ہوں گے۔ عمران خان کے حوالے سے ایک واضح اور دوٹوک پالیسی اپنائی جائے ۔ حکومت کا کمزور اور معذرت خواہانہ رویہ عمران خان کو مزید مضبوط بنا رہا ہے۔ عمران خان کو قانون کی گرفت میں آنا چاہیے اور اپنے جرائم کا حساب دینا چاہیے ۔
اجلاس کے دوران اتحادی جماعتوں کا موجودہ سیاسی صورتحال کا مل کر مقابلہ کرنے پر اتفاق کیا ۔اتحادی جماعتوں کے عام انتخابات مل کر لڑنے کی تجویز بھی پیش کی گئی ۔
مریم نواز نے پی ڈی ایم کو انتخابی اتحاد بنانے کی بجائے انفرادی حیثیت میں انتخاب لڑنے، عمران خان کی گرفتاری کی بھی تجویز پیش کردی ۔
مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز کاکہنا تھا کہ عمران خان کو قانون کے کٹہرے میں نہ لائے تو ہم پر انگلیاں اٹھیں گی۔قانون سب کےلیے برابر ہے تو پھر یہ بھی قانون سے بالاتر نہیں ۔ہمیں اب آر یا پار والے فیصلے کرنا ہونگے مصلحت پسندی نقصان دہ ہوگی ۔
سابق وزیراعظم عمران خان سے نمٹنے کے معاملے پر اتحادی جماعتیں حکومت پر برس پڑیں ۔موجودہ حکومت کی دو بڑی جماعتیں ن لیگ جے یو آئی ف پنجاب خیبر پختونخواہ انتخابات کے حق میں نہیں ، دونوں جماعتیں ملک کی امن و امان اور معاشی صورتحال کو جواز قرار دیتی ہیں ، پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابات کے حق یا مخالفت میں کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی فی الحال ن لیگ اور مولانا کو ناراض نہیں کرنا چاہتی ہے ۔بڑی سیاسی جماعتوں کے بعد چھوٹی جماعتوں نے معاملے کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی تجویز دی ۔
نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے رابطوں اور اتفاق رائے سے انتخابات کے انعقاد کی حمایت کی ۔نیشنل پارٹی نے تجویز دی کہ حکومت کا بیانیہ نہیں چل رہا عمران خان کا مقابلہ سیاسی میدان میں کیا جائے ۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماﺅں نے حکومت سے سوال کیا کہ آج نہ کروائیں انتخاب کیا گارنٹی ہے اکتوبر میں صورتحال آپکے حق میں ہوگی ۔
اتحادی جماعتوں کی رائے تھی کہ حکومت فیصلہ کرے صورتحال سے نمٹنا کیسے ہے ۔
ذرائع کے مطابق اتنی کمزوری دکھا کر صورتحال قابو کرنا ناممکن ہے ۔حکومت عمران خان کے معاملے میں کمزوری دکھا رہی ہے ۔
حکومت نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کمزور نہیں ہے سیاسی تصادم سے گریز چاہتے ہیں ۔تصادم سے بچ کر صورتحال کو قابو کرنے کے راستے میں عدلیہ ہے ۔
وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت حکومت میں شامل جماعتوں کے 6 گھنٹے طویل اجلاس کااعلامیہ جاری کردیاگیا۔
اعلامیہ کے مطابق22 مارچ کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب، ریاستی عمل داری یقینی بنانے کے لئے اہم فیصلے ہوں گے۔
وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت سیکورٹی سیشن میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر ،ڈی جی آئی ایس اور دیگر سیکیورٹی حکام نے شرکت کی۔
اجلاس کے دوران اجلاس کی عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنے والی پولیس ، رینجرز پر عمران خان کے حکم پر حملوں اور تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔کالعدم تنظیموں کے متشدد تربیت یافتہ جتھوں کے ذریعے ریاستی اداروں کے افسروں اور اہلکاروں پر لشکر کشی انتہائی تشویش ناک صورتحال قرار دی گئی۔یہ ریاست دشمنی ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ تمام شواہد اور ثبوت موجود ہیں، قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ سوشل میڈیا اور بیرون ملک اداروں بالخصوص آرمی چیف کے خلاف مہم کی شدید مذمت، بیرون ملک پاکستانی مذموم ایجنڈے کا حصہ نہ بنیں۔ لسبیلہ کے شہدا کے خلاف غلیظ مہم چلانے والے عناصر بیرون ملک یہ مہم چلا رہے ہیں، قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔
اعلامیہ کے مطابق شرکا نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں یہ رویہ قابل قبول نہیں ہوتا۔ یہ آزادی اظہار نہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سلوک سے ترازو کے پلڑے برابر نہ ہونے کا تاثرمزید گہرا ہورہا ہے۔ایک ملک میں انصاف کے دو معیار قبول نہیں۔جوڈیشل کمشن پر حملے، پولیس افسران اور اہلکاروں کو زخمی کرنے، املاک کی توڑ پھوڑ، تشدد اور جلاؤ گھیراؤ پر قانون کے مطابق سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اورپی ٹی آئی وکیل خواجہ طارق رحیم کی آڈیو لیک کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے مریم نوازشریف کے بارے میں گھٹیا گفتگو کی مذمت کی گئی۔
اجلاس میں ملک کی معاشی وسیاسی، داخلی وخارجی ، امن وامان کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی غور کیاگیا۔ اجلاس کو معیشت ، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی، عوامی ریلیف کے لئے وزیراعظم کے اقدامات سے آگاہ کیاگیا جس میں کسان پیکج، رمضان میں غریب خاندانوں کو آٹے کی مفت فراہمی،کم تنخواہ اور آمدن والے لوگوں کے لئے پٹرول کی قیمت میں 50 روپے کی خصوصی رعایت دینے کی سکیم،ملک بھر کے نوجوانوں کے لئے سی ایس ایس کے خصوصی امتحان کا انعقاد، شمسی توانائی کے فروغ، نوجوانوں کے لئے بلاسود اور رعایتی قرض ، سیلاب متاثرین کی بحالی سمیت دیگر پروگرام شامل ہیں۔
اجلاس نے وزیراعظم شہبازشریف کی معیشت اور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور مشکل حالات کے باوجود عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے اقدامات کو سراہا اور ان پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔
اجلاس نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنے والی پولیس ، رینجرز پر عمران خان کے حکم پر حملوں اور تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ پٹرول بم، ڈنڈوں، غلیلوں، اسلحہ، کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل متشدد تربیت یافتہ جتھوں کے ذریعے ریاستی اداروں کے افسروں اور اہلکاروں پر لشکر کشی انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہ رویہ ہرگز آئینی، قانونی، جمہوری اور سیاسی نہیں۔ ریاست کے مقابلے میں ہتھیار اٹھانا، اُن کے افسروں اور جوانوں کو نشانہ بنانا، اُن پر گولی چلانا، گاڑیاں جلانا ، عدالتی احاطوں کا محاصرہ اور دندنانا، جتھہ کشی، پولیس کی گاڑیاں نہروں میں پھینکنا، قانونی ڈیوٹی ادا کرنے والے پولیس والوں کو راستے میں روک کر تشدد کا نشانہ بنانا لاقانونیت کی انتہاء ہے جسے کوئی بھی ریاست برداشت نہیں کرسکتی۔
اجلاس نے ریاستی اداروں کے افسروں اور جوانوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے اُن کی فرض شناسی کو سراہا اور قرار دیا کہ قانون شکن عناصر کے خلاف قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے اور کوئی رعایت نہ برتی جائے۔ یہ ریاست دشمنی ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
اجلاس نے قرار دیا کہ پوری قوم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ کالعدم تنظیموں کے تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کا جتھہ ہے جس کے تمام شواہد اور ثبوت موجود ہیں لہذا فیصلہ کیاگیا کہ قانون کے مطابق اس ضمن میں کارروائی کی جائے ۔