الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ معطل کرنے کی الیکشن کمیشن کی استدعا مسترد

سپریم کورٹ: الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت
کیپشن: Supreme Court: Hearing on the Election Commission's appeal against the formation of Election Tribunals

 ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ معطل کرنے کی الیکشن کمیشن کی استدعا مسترد کر دی ۔ عدالت نے لارجر بینچ کی تشکیل کےلیے معاملہ 3 رکنی کمیٹی کو بھجوا دیا۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔

عدالت نے پی ٹی آئی کے 9امیدواروں کو فریق بنانے کی استدعا منظور کرتے ہوئے نوٹس جاری کردیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس نعیم افغان پر مشتمل 2 رکنی بنچ نےسماعت کی، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور پی ٹی آئی وکیل سلمان اکرم راجا عدالت پیش ہوئے۔ 

عدالت میں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل کا آغاز کیا، وکیل الیکشن کمشن نے بتایا کہ کیس میں آئین کے آرٹیکل 219(سی) کی تشریح کا معاملہ ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں کیس کی تھوڑے حقائق بتا دیجیے جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 14 فروری کو الیکشن کمیشن نے ٹریبونلز کی تشکیل کیلئے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے، ٹریبونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تمام ہائی کورٹس سے خطوط کے ذریعے ججز کے ناموں کی فہرستیں مانگی گئیں، خطوط میں ججز کے ناموں کے پینلز مانگے گئے، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 20 فروری کو 2 ججز کے نام دیئے گئے، دونوں ججز کو الیکشن ٹریبونلز کیلئے نوٹیفائی کردیا گیا، 26 اپریل کو مزید دو ججز کی بطور الیکشن ٹریبونلز تشکیل دیئے گئے۔

دوران سماعت ہائیکورٹ کیلئے قابل احترام کا لفظ کہنے پر چیف جسٹس نے وکیل کو روک دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹ کو قابل احترام کہہ رہے ہیں، یہ ججز کیلئے کہا جاتا ہے، انہوں نے دریافت کیا کہ انگریزی زبان انگلستان کی ہے، کیا وہاں پارلیمان کو قابل احترام کہا جاتا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ یہاں پارلیمنٹیرین ایک دوسرے کو احترام نہیں دیتے، ایک دوسرے سے گالم گلوچ ہوتی ہے، جنہیں ہم چاہتے ہیں کہ احترام ہو، الیکشن کمیشن کو قابل احترام کیوں نہیں کہتے؟ کیا الیکشن کمیشن قابل احترام نہیں؟

بعد ازاں وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 4 ٹریبونلز کی تشکیل تک کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔

کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازع بنانا لازم ہے؟ چیف جسٹس

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کر سکتے؟ کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازع بنانا لازم ہے؟ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازعہ تھا، رجسٹرار ہائیکورٹ کی جانب سے خط کیوں لکھے جا رہے ہیں؟ چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر بیٹھ جاتے تو تنازعہ کا کوئی حل نکل آتا، بیٹھ کر بات کرتے تو کسی نتیجے پر پہنچ جاتے، کیا چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کا ملنا منع ہے؟

اس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے، تنازعہ نہیں ہوا، لاہور ہائی کورٹ کے علاوہ کہیں تنازعہ نہیں ہوا، بلوچستان ہائیکورٹ میں تو ٹریبونلز کی کارروائی مکمل ہونے کو ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ کوئی انا کا مسئلہ ہے؟

بعدازاں سماعت میں ساڑھے 11 بجے تک کا وقفہ کر دیا گیا، وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کے انعقاد اور الیکشن ٹریبونل کے قیام کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ الیکشن کمیشن پر برہم ہوگئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آیا الیکشن کمیشن نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے بات کیوں نہیں کی؟ آئین میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ کسی جج سے ملاقات نہیں کر سکتے، ملاقات کرنے میں انا کی کیا بات ہے؟ دونوں ہی آئینی ادارے ہیں، الیکشن کمیشن متنازع ہی کیوں ہوتا ہے؟ آپ لوگ الیکشن کرانے میں ناکام رہے۔

آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹریبونلز کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے: عدالت

اسی کے ساتھ قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کی جانب سے جاری کئے گئے صدارتی آرڈیننس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوالات اٹھا دیئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آرڈیننس سے کام چلانا ہے تو پارلیمان کو بند کر دیں، آرڈیننس لانا پارلیمان کی توہین ہے، آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹریبونلز کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، آرٹیکل 219 سیکشن سی نے بالکل واضح کر دیا ہے، ہم نے آئین و قانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، عدالتی فیصلوں پر حلف نہیں لیا، سپریم کورٹ نے جب جب آئینی تشریح کیں، پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ میں نے قانون نہیں بنایا، جنرل بات سے زیادہ نہیں کر سکتا، آرڈیننس کا دفاع نہیں کر رہا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیسز کی ذمہ داری میری ہے، چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ اپنی کمزوری کو وجہ نہ بنائیں، وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ میں نے آخری بار سنا تھا تو لاہور ہائی کورٹ میں شاید 62 ججز تھے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ٹریبونلز تشکیل سے متعلق صدارتی آرڈیننس پر ریمارکس دیئے کہ ریٹائرڈ ججز کا قانون کب بنایا گیا؟ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ایک طرف پارلیمان نے قانون بنایا ہے، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کیسے لایا جا سکتا ہے؟ آرڈیننس لانے کی کیا وجہ تھی؟ کیا ایمرجنسی تھی ؟ الیکشن ایکٹ تو پارلیمان کی خواہش تھی، یہ آرڈیننس کس کی خواہش تھی؟

آرڈیننس کے ذریعے ہائیکورٹ کے فیصلے کی نفی کی گئی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

وکیل نے بتایا کہ آرڈیننس کابینہ اور وزیر اعظم کی خواہش تھی جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پارلیمان کی وقعت زیادہ ہے یا کابینہ کی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پارلیمان کی وقعت زیادہ ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس آرڈیننس کے ذریعے ہائی کورٹ کے فیصلے کی نفی کی گئی ہے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجا کو ججز کیلئے ہینڈ پک کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو ہائی کورٹ کے کچھ ججز پر تحفظات ہیں؟ لاہور ہائی کورٹ کے حوالے سے ایسے ریمارکس کو ہم تسلیم نہیں کریں گے، آرڈیننس کو دیکھ کر ہینڈ پک کا لفظ ہم استعمال کر رہے ہیں، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کدھر سے آگیا؟ کوئی ایمرجنسی ہوتی تو سمجھ میں آتا ہے، یہ بھی تو الیکشن میں مداخلت ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجا سے استفسار کیا کہ کیا آرڈیننس کو چیلنج نہیں کیا؟

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ آرڈیننس کو لاہور، اسلام آباد ہائی کورٹس میں چیلنج کیا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ مختلف ہائی کورٹس کیوں؟ آرڈیننس تو پورے ملک میں لگے گا۔

چیف جسٹس نے سماعت کا حکمنامہ لکھوادیا: 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوایا۔ حکمنامے میں لکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 29 مئی کی لاہور ہائیکورٹ کی ججمنٹ پر اپیل دائر کی۔ الیکشن کمیشن نے استدعا کی کہ الیکشن ٹریبونل کی تعیناتی کا کیا ہائیکورٹ اختیار رکھتا یا نہیں؟

الیکشن کمیشن کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ الجہاد کیس، ریاض الحق کیس کی روشنی میں دیا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کی تشریح قانون کے مطابق نہیں۔ رٹ پٹیشن نہیں بنتی کیونکہ کنسلٹیشن جاری تھی۔ سلمان اکرم راجا آئندہ سماعت پر خود دلائل دیں گے۔

سلمان اکرم راجا نے کہاکہ الیکشن کمیشن جوڈیشل باڈی نہیں جو ججز، ٹریبونل لگائے۔

سلمان اکرم راجا کے مطابق الیکشن کمیشن کو انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنی چاہیے تھی نہ کہ براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کرتے۔ سلمان اکرم راجا نے استدعا کی کہ 5 رکنی لارجر بینچ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023 کے ذریعے قانون کی تشریح کرے۔

سپریم کورٹ کے سامنے معاملہ لیگل تشریح کاہے، فریقین کو نوٹس جاری کرتےہیں۔ الیکشن کمیشن کی اپیلیں پریکٹس آینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کمیٹی کو بھجوائی جاتی ہیں۔ تین رکنی کمیٹی جلد از جلد لارجر بینچ تشکیل دے۔ الیکشن کمیشن تمام ہائیکورٹس کا ٹریبونل سے متعلق نوٹیفکیشنز عدالت میں جمع کروائے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے حکم امتناع کی استدعا مسترد کی جاتی ہے۔