لاپتہ آبدوز کس کی ملکیت ؟کنٹرول کیسے کی جاتی ہے ؟

لاپتہ آبدوز کس کی ملکیت ؟کنٹرول کیسے کی جاتی ہے ؟
کیپشن: who owns missing submarine and how it is controlled

ایک نیوز : کینیڈا کے جنوب مشرقی ساحل سے ٹائی ٹینک کا ملبے دیکھنے کیلئے سیاحتی مہم پر جانے والی آبدوزسمندرمیں لاپتہ ہوگئی ۔
رپورٹ کے مطابق لاپتہ ہونے والی آبدوز میں دوپاکستانی بھی سوار ہیں جو پانچ رکنی مہم جو ٹیم کا حصہ تھے۔  بحر اوقیانوس میں ڈوبے جہاز کی سیر کے لئے گئی آبدوز ٹائٹین سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ لاپتہ پاکستانیوں میں اینگرو پاکستان کے نائب چیئرمین شہزاد داؤد اور انکے بیٹے سلمان بھی شامل ہیں۔داؤد خاندان کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ مشن پر خاندان کے دو افراد سوار تھے جن سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان نے بحر اوقیانوس میں ٹائی ٹینک کی باقیات دیکھنے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا۔
لاپتہ ہونیوالی آبدوزtitan ہے کیا ؟
 لاپتہ ہونیوالی آبدوز اوشین گیٹ کی ملکیت ہے اور اسے titan کا نام دیا گیا ہے ۔ OceanGate کی ویب سائٹ کے مطابق یہ آبدوز پانچ افراد کو لے جانے کی صلاحیت رکھتی میں ہے جس میں ایک پائلٹ اور چار مسافرشامل ہوتے ہیں یہ کاربن فائبر اور ٹائٹینیم سے بنائی گئی ہے ،اس کی لمبائی 6.7 میٹر ہے اور اسے 2.5 میل (4 کلومیٹر) کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔جبکہ ٹائی ٹینک کا ملبہ 3800 میٹر گہرائی میں موجود ہے۔
آبدوز میں کونسی سہولیات ہوتی ہیں؟
بنیادی طور پر یہ آبدوز نہیں بلکہ اس جیسی submersible کشتی ہے جو زیرآب سفر کر سکتی ہے۔اس میں ایک پائلٹ اور 4 دیگر افراد سفر کرتے ہیں جو عموماً ماہرین ہوتے ہیں یا ایسے سیاح، جو اس مہنگے سفر کا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔یہ آبدوزسائز میں بہت ہی چھوٹی سی ہے سہولیات بھی بہت کم ہیں مسافروں کو ایک سلنڈر نما کیپسول میں بند کر دیا جاتا ہے۔آکسیجن سے آبدوز کی فضا کو انسان کے سانس لینے کیلئے کارساز بنایا جاتا ہے جہاں انسان سانس لے سکے ۔سمندر کی گہرائی میں جانے کے لیے یہ 4 الیکٹرک thrusters استعمال کرتی ہے جبکہ سمندری ماحول کی کھوج کے لیے کیمروں، روشنیوں اور اسکینرز سے لیس ہے۔
 ٹائٹین کے اندرکسی منی وین جتنا بڑا کیبن ہے، جس میں لوگ موجود ہوتے ہیں۔کمپنی کا کہنا ہے کہ ٹائٹن سے سمندر کا ویو پورٹ اس طرح کی کسی بھی submersible میں سب سے بڑا ہے۔


ٹائٹین کو آپریٹ کیسے کیا جاتا ہے ؟
کمپنی سفر سے پہلے  ٹائی ٹینک جانے کیلئے لوگوں سے 'موت کی دستاویز' پر دستخط کراتی ہے ۔اگر اس آبدوز کو کنٹرول کرنے کی بات کی جائے تو اسے پلے اسٹیشن جیسے ایک کنٹرولر سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔زیرآب جانے کے بعد باہری دنیا سے رابطے کے لیے یہ ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک کی سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتی ہے۔پانی میں غوطہ لگانے پر  اس کو بحری جہاز پولر پرنس سے نیوی گیشن کی ہدایات ٹیکسٹ میسجز میں ملتی ہیں۔اس جہاز کا عملہ ٹائٹن کی لوکیشن کو مانیٹر بھی کر رہا ہوتا ہے۔یہ ٹائٹین 55 میٹر فی منٹ کی رفتار سے نیچے اُتر سکتا ہے۔اس میں طاقتور لائٹس، کیمرے اور ایک لیزر سکینر موجودہوتا ہے ۔ایک صحافی جس نے ایک بار اس کا سفر کیا وہ بتاتے ہیں کہ اسے بالکل ایسے ہی کنٹرول کیا جاتا ہے جیسے کوئی ویڈیو گیم ہو۔

ٹائٹین میں کتنی آکسیجن ہوتی ہے ؟
امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق اتوار کو سمندر میں جانے کے بعد تقریباً ایک گھنٹہ 45 منٹ میں آبدوز اور عملے کے ارکان سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا جبکہ روانہ ہوتے ہوئے اس میں چار دن کی آکسیجن سپلائی موجود تھی امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماگر نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’ہمارے اندازے کے مطابق (تلاش کے کام کے لیے) اس وقت 70 سے 96 گھنٹے دستیاب ہیں۔‘
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرچ آپریشن میں تیزی آ رہی ہے کیونکہ اندازہ ہے کہ آبدوز پر سوار افراد کے پاس استعمال کے لیے آکسیجن کا ذخیرہ کم ہوتا جا رہا ہے۔آبدوز کو تلاش کرنے کی مہم میں امریکی اور کینیڈین بحریہ کے علاوہ سمندر کی گہرائی میں کام کرنے والے ادارے بھی شریک ہیں۔

ٹائٹین کیساتھ کیاہوا ہوگایا کیا ہوسکتا ہے ؟؟
ٹائٹین کیساتھ کیاہوا ہوگااس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر ماہرین نے متعدد ممکنہ خیالات پیش کیے ہیں۔ایک خیال تو یہ ہے کہ یہ آبدوز ٹائی ٹینک کے ملبے الجھ نہ گئی ہو، جبکہ پاور فیلیئر یا کمیونیکیشن سسٹم میں خرابی جیسے خیال بھی پیش کیے گئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ٹائی ٹینک کا ملبہ سمندر کی تہہ میں پھیلا ہوا ہے اور یہ خطرناک ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹائٹن کا رابطہ ایک گھنٹے 45 منٹ بعد منقطع ہوا جس سے عندیہ ملتا ہے کہ عملہ سمندر کی تہہ یا اس کے قریب پہنچ گیا ہوگا۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ ٹائٹن کے پریشر hull میں لیک کا مسئلہ ہوا ہو۔ماہرین کے مطابق ایسی صورت میں اگر ٹائٹن سمندر کی تہہ تک پہنچ گئی ہو اور اپنی پاور سے اوپر نہیں آ رہی تو آپشنز محدود ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ تہہ میں رہ سکتی ہے مگرایسی امدادی کشتیاں بہت کم ہیں جو اتنی گہرائی میں جا سکتی ہیں اور غوطہ خور وہاں تک نہیں جا سکتے۔انہوں نے مزید کہا کہ سمندر کی تہہ سے ٹائٹن کو نکالنا بہت مشکل آپریشن ثابت ہوگا۔