کبھی کبھی ایسا ہمارے ساتھ بھی ہو جاتا ہے۔
پھر پرانے ٹائروں کو بدلنے کا خرچ بھی اپنی جگہ ہے۔ ٹائروں کو کسی گاڑی کی سب سے کمزور چیزوں میں سے تصور کیا جاتا ہے مگر کیا اب یہ سب بدلنے والا ہے؟
کیا ہم سیاہ ربر کے بنے ہوئے اور ہوا سے بھرے اس ٹائر کے آخری دور میں جی رہے ہیں جسے پہلی بار گاڑیوں میں 1890 میں استعمال کیا گیا تھا۔
لکسمبرگ میں ایک ریس ٹریک پر ٹیسلا ماڈل تھری خطرناک موڑ کاٹتی ہے، رفتار بڑھاتی ہے، پھر ہنگامی بریک لگاتی ہے، مگر اس سب میں کچھ بھی حیران کُن نہیں۔
جو بات حیران کُن ہے وہ یہ کہ اس گاڑی میں بغیر ہوا کے چار ٹائر ہیں جنھیں امریکی ٹائر ساز کمپنی گڈایئر نے بنایا ہے۔
خصوصی پلاسٹک کی تیلیاں ربر کے ایک مضبوط بینڈ کو رِم کے اوپر جمائے رکھتی ہیں۔ جیسے جیسے گاڑی چلتی ہے یہ سپوکس سڑک کے حالات کے مطابق لچک کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
گڈایئر کے نان نیومیٹک ٹائرز (این پی ٹی) پراجیکٹ کے سینیئر مینیجر مائیکل ریچیتا کھل کر ان ٹائروں کی خامیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں: 'شور اور لرزش ہو گی۔ مگر ہم ابھی سیکھ رہے ہیں کہ سواری کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ کیسے بنایا جائے۔ مگر ہمیں لگتا ہے کہ آپ ان کی کارکردگی سے حیران رہ جائیں گے۔'
اور وہ غلط نہیں تھے۔
برقی اور خود کار گاڑیوں کی وجہ سے ٹائروں میں بھی بدلاؤ آ رہا ہے۔ تقسیم کار کمپنیاں اور ٹرانسپورٹ سروسز ایسے ٹائر چاہتی ہیں جن کی دیکھ بھال کم خرچ ہو، یہ پنکچر پروف ہوں، دوبارہ قابلِ استعمال بنائے جا سکیں، اور ان میں ایسے سینسرز ہوں جو سڑک کے حالات کا خاکہ بنا سکیں۔
شہروں میں اب زیادہ سے زیادہ لوگ گاڑیاں خریدنے کے بجائے رائیڈ بک کرواتے ہیں چنانچہ جتنی دیر تک گاڑی کا ٹائر پنکچر رہے گا، وہ گاڑی پیسے نہیں بنا سکے گی۔
ریچیتا کہتے ہیں کہ 'ہوا والے ٹائرز کی اپنی جگہ ہمیشہ موجود رہے گی مگر ہمیں مختلف حل ایک وقت میں استعمال کرنے چاہییں۔ ہم ایسی دنیا میں جا رہے ہیں جہاں خود کار گاڑیاں پہلے سے زیادہ عام ہیں اور کئی شہروں میں ٹرانسپورٹ بطور سروس اوبر کریم وغیرہ موجود ہیں، وہاں ایئرلیس ٹائر کا ہونا بہت ضروری ہے۔'
گڈایئر کی لیبارٹریوں میں ایئرلیس ٹائروں کو لگاتار 24 گھنٹے تک مختلف اوزان اور رفتاروں پر آزمایا جاتا ہے، یعنی بغیر رکے ہزاروں کلومیٹر روزانہ۔
ریچیتا کہتے ہیں کہ کچھ تیلیاں مڑ جاتی ہیں، کچھ کچلی جاتی ہیں مگر مجموعی طور پر یہ ڈھانچہ بحفاظت اپنا کام کرتا رہتا ہے۔
ٹیکنالوجسٹس اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ائیرلیس ٹائروں پر مسلسل کام کیا جارہا ہے اور وہ وقت دورنہیں جب فی الحال خواب دکھنے والی صورت حال حقیقت کا روپ اختیار کرلے گی۔