ایک نیوز: سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس جس میں حکومت کا عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق وزارت خزانہ حکام نےانکشاف کیا ہےکہ بجلی کے بلوں میں ٹی وی فیس کے ساتھ ریڈیو فیس بھی شامل ہوگی،بجلی کے بلوں میں 50 روپے ٹی وی اور ریڈیو فیس عائد ہوگی۔
وزارت خزانہ حکام کا کہنا ہےکہ وزارت اطلاعات نے اس حوالے سے سمری تیار کرلی ہے جس کے مطابق 35 روپے پی ٹی وی اور 15 روپے ریڈیو فیس عائد ہوگی۔ سینیٹ کمیٹی نے یہ سفارش کی تھی جس پر کام کیا گیا ہے۔ان میں سے نقصان میں جانے والوں اداروں کی نجکاری کی سفارش تھی،اداروں کی نجکاری کا معاملہ پالیسی سے متعلق ہے۔وزارت خزانہ کو خزانہ کمیٹی کی 55 سفارشات موصول ہوئیں تھیں۔کامل علی آغا نے کہا کہ یہ ادارے کا کام ہے کہ وہ قوانین بنائے تاہم پارلیمنٹ ان قوانین پر غور کر سکتی۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ایف بی آر کو فنانس بل کے حوالے سے 97 سفارشات موصول ہوئی ہیں،ایف بی آر نے سینیٹ کی 77 سفارشات کو فنانس بل کا حصہ بنایا ہے اور سینیٹ کی 15 سفارشات پر جزوی طور پر عمل کیا ہے جبکہ سینیٹ کی چھ سفارشات کو مسترد کیا گی ہے۔ سینیٹ کی سفارشات پر عملدرآمد کی شرح 80 فیصد ہے۔تقریباً ڈھائی ہزار اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔برانڈڈ گارمنٹس پر 15 فیصد جی ایس ٹی عائد کیا گیا ہے،بونس شیئر پر انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ ایسوسی ایٹ کمپنیوں کی ٹرانسفر پرائسنگ کا پہلے آڈٹ ہوتا ہے۔اس کی تحقیقات کمشنر کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔
وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن پر غذائی اشیاء کی سبسڈی کیلئے 35 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔اس میں سے 5 ارب روپے وزیر اعظم کے رمضان ریلیف پیکیج کیلئے مختص ہیں،سینٹر کامل علی آغا نے سوال کیا کہ آٹے کیلئے کتنی رقم رکھی گئی ہے ؟ جس پر سلیم مانڈوی والا نے جواب دیا کہ اس کا جواب یوٹیلیٹی اسٹورز والے دیں گے،۔
وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ لیب ٹاپ اسکیم کیلئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں،آئی ٹی کمپنیوں کو ایکسپورٹ آمدن کا 25 فیصد باہر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔