ویب ڈیسک :مسلم لیگ کے رہنما مشاہد حسین سید نے تحریک انصا ف کے بانی عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تمام سیاسی قیدیوں کو رہائی ملنی چاہئے ۔
تفصیلات کے مطابق ایوان بالا (سینیٹ) کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ن لیگ کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ 8 فروری کے انتخابات کے روز لوگوں کو آزادی سے ووٹ ڈالنے کا موقع ملا، عوام کی ووٹنگ سے ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوگیا۔ تحریک انصاف کو مینڈیٹ ملا ہے جس پر میں پی ٹی آئی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ مشکلات کے باوجود تحریک انصاف سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ 8 فروری کے انتخابات بحرانی کیفیت نہ لے آئیں۔بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے صورتحال کی جڑ تک جانا ہوگا، پچھلے عرصے 10سال میں 3 بڑے واقعات ہوئے جو جمہوریت کے منافی تھے، 2014 میں ایک دھرنا دیا گیا ،اس دھرنے سے ایک منتخب حکومت کو غیر مستحکم کیا گیا ۔
اس کے بعد 28 جولائی 2017ء کو میاں نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ نواز شریف کو جیل میں سیاسی قیدی بھیجا گیا ہے، پھر 10 اپریل 2022 کو پی ٹی آئی حکومت کو نکالنے کے لیے یہ فیز پھر دہرایا گیا ۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ جب ہمارے ساتھ ہورہا تھا تو دوسری سائیڈ بڑی خوش تھی اور جب ان کے ساتھ ہورہا تھا تو ہم نے بڑی خوشیاں منائیں بہتر ہوتا کہ پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد الیکشن کروا دئیے جاتے۔ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ تب تک خود کچھ نہیں کرسکتی جب تک اس کے ساتھی نہیں ہوتے، سازش ہوتی ہے تو مل کے ہوتی ہے، وقت کی ضرورت ہے کہ بشمول عمران خان جتنے سیاسی قیدی ہیں سب کو رہا کیا جائے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مسنگ پرسنز کو بھی سامنے لایا جائے کیوں کہ دست شفقت کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ صرف پنجاب لے لوگوں پر شفقت کی جائے۔ دست شفقت کا مطلب ہے سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان، پنجاب جہاں بھی زیادتی ہو اسے غلط کہا جائے۔
لیگی سینیٹر نے کہا کہ ملک میں سیاسی استحکام اسی صورت میں آسکتا ہے جب تین بڑی سیاسی جماعتیں، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مل کرکام کریں، ماضی میں بڑی زیادتیاں ہوئی، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی عدالتی قتل تھا، پیپلز پارٹی نے صعوبتیں برداشت کی، میاں نواز شریف کے خلاف بھی 1993، پھر 2017 میں ’’سافٹ کوز‘‘ ہوئے، ان کے خلاف ملٹری ایکشن ہوا، ان کو ہتھکڑی بھی لگائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹی ٹی پی سے بات کر لی جنہوں نے دہشتگردی میں پاکستانیوں کو قتل کیا، بی ایل اے کے بارے میں ہم کہہ رہے ہیں کہ عام معافی دے دیں تو سیاسی قائدین کو بھی عام معافی دینی چاہیے، کیوں کہ اب ماضی کا قصہ ختم ہوگیا ہے، 8 فروری نیا دن ہے کہ ہم مل کر آگے بڑھیں، سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ قومی حکومت بنائیں یا تین بڑی سیاسی جماعتیں مل کر اتحادی حکومت بنائیں۔یہ جو رویہ ہے کہ فلاں سے بات نہیں کرنی فلاں سے بات نہیں کرنی یہ ختم ہونا چاہئے ، چاہے چور ہو چاہے کچھ بھی ہو اگر عوام نے ووٹ دیا ہے تو اس کا احترام کرنا ہوگا ۔
عوامی مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے، جس جماعت کو مینڈیٹ ملا اس کا احترام ہونا چاہیے، تحریک انصاف کو بھی رویہ تبدیل کرنا چاہیے۔ نواز شریف کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ابتدائی قدم اٹھائیں۔ ’وقت کا تقاضا کہ نواز شریف اپنی لیڈر شپ دکھائیں، وزیراعظم شپ پیپلز پارٹی کو آفر کریں اور خود سربراہ مملکت بن جائیں، پی ٹی آئی کو بھی سسٹم میں شامل کریں، عمران خان سے بھی ملیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر سیاست دان ایسا نہیں کریں گے تو ان کے پاس قدم بڑھانے کا موقع ضائع ہو جائے گا۔