پاکستان میں پہلا’’ رجیم چینج آپریشن ‘‘

kh nazim uddin & potus
کیپشن: kh nazim uddin & potus
سورس: google

خالد کاشمیری

  اس وقت کے اہل فکر ونظر اور سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق خواجہ ناظم الدین درحقیقت امریکی سازش کا شکار ہوئے۔ اس سلسلے میں امریکی سی آئی اے نے مرکزی کردار ادا کیا اس حوالے سے یہ راز بھی زبان زدعام ہوا کہ خواجہ ناظم الدین نے امریکا سے فوجی معاہدوں ’’ سیٹو‘‘اور’’ سینٹو‘‘ میں پاکستان کی شمولیت سے صاف انکار کردیا تھا جبکہ گورنر جنرل غلام محمد، سیکرٹری دفاع میجر جنرل سکندر مرزا ، جنرل ایوب خان ، وزیر خزانہ چودھری محمد علی اور وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان امریکا سے فوجی معاہدوں میں شمولیت اختیارکرنے کے حق میں تھے چنانچہ خواجہ ناظم الدین کا امریکا کی مخالفت کے نتیجے میں امریکی سی آئی اے نے ہانکا کرکے شکار کیا۔  اس سازش کی کڑیاں اس حقیقت سے بھی ملتی ہیں کہ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد امریکا میں  متعین پاکستان کے سفیر چودھری  محمد علی بوگرہ کو خصوصی طور پر پاکستان طلب کیا گیا اور وزیر اعظم پاکستان کے عہدے کا حلف دلایا گیا ۔

حقیقت میں اسی دور میں جمہوری سیاسی اداروں کا تقدس ان لوگوں کے ہاتھوں پامال ہونا شروع ہوا جو اگرچہ بھوکے تھے تو صرف اقتدار کے۔۔۔۔۔

اور یوں پہلی دفعہ پاکستان میں پہلا’’ رجیم چینج آپریشن ‘‘سی آئی اے کی مدد سے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا یہ المناک اور افسوس ناک تاریخی حقیقت کہ  پاکستان کے اس وقت کے منتخب وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو محض اس لئے سازش کرکے ہٹا دیا گیا کہ وہ پاکستان کے قومی مفادات کی خاطر امریکا سے فوجی معاہدوں  میں پاکستان کی شمولیت سے صریحا انکار کررہے تھے۔ امریکی ایما پر گورنر جنرل غلام محمد نے تمام آئینی ، قانونی اور اخلاقی وجمہوری اقدار کوروندتے ہوئے محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم نامزد کیا اور اس پر طرہ یہ کہ مرکزی اسمبلی جس میں زیادہ تر مغربی پاکستان کے جاگیردار اور وڈیرے شامل تھے انہوں نے کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محمد علی بوگرہ کواپنے لیڈر تسلیم کرتے ہوئے اعتماد کا ووٹ دیا  یہ وہی مسلم لیگی تھے جو تھوڑا عرصہ قبل خواجہ ناظم الدین کو اپنا  قائد مانتے ہوئے ان پر مکمل اعتماد کا اظہار کرچکے تھے ۔

 حالات نے پھر پلٹا کھایا گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کو برطرف کرتے ہوئے گورنر جنرل کونسل قائم کی جس نے آئندہ نئی آئین ساز اسمبلی کی تشکیل تک ملک کا نظم ونسق سنبھالا۔ جون 1955 کو نئی آئین ساز اسمبلی معرض وجود میں آئی اور 11 اگست 1955 کو چودھری محمد علی وزیراعظم بنائے گئے انہیں نوکرشاہی یا اسٹیبلشمنٹ کے تمام حلقوں کی بھرپور حمایت اور تعاون حاصل تھا وہ گورنر جنرل کے مقابلے میں زیادہ بااثر بن گئے تاہم ان کا جھکاؤ بھی امریکا کی طرف ہی تھا ان کے عہد میں  پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں کے لئے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکی ماہرین کے مشوروں پر عمل کیا جانے لگا دراصل پاکستان معاشی ، سماجی اور صحت کے حوالے سے امریکی تجربات کی جولان گاہ بن چکا تھا اور پاکستان کے بعض اہم ترین شعبوں کی ترقی کے لئے مکمل طور پر امریکا کا دست نگر بنادیا گیا۔

اس دور میں پاکستان میں امریکی امداد نے افراط زر پیدار کرنے کی راہ ہموار کی اقتصادی عدم استحکام کا آغاز ہوگیا اور اقربا پروری نے سراٹھایا۔ ملک کے صوبوں میں معاشی ناہمواریوں نے ملک کے اقتصادی ڈھانچے کو بری طرح متزلزل کرکے رکھ دیا، یہیں سے صوبائی خودمختاری کے رحجانات وبا کی صورت میں پھوٹ پڑے ۔ اسی دور میں بہت سے مسلم لیگیوں نے سید حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ سے کھلے بندوں سیاسی رابطوں کا آغاز کیا ۔ حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ کی طرف سے مشرقی پاکستان کے لئے مساوی حقوق کی آواز بلند سے بلند ترین ہوتی چلی گئی۔۔

مارچ 1956 میں چودھری محمد علی کی وزارت عظمی کے عہد میں پاکستان کا پہلا آئین تشکیل دے کر نافذ العمل کیا گیا اور پھر اس آئین کے خالق کی حکومت ایک برس ایک ماہ تک رہنے کے بعد ختم ہوگئی ۔ اس کے بعد 18 ستمبر 1956 کو سید حسین شہید سہروردی جیسے مایہ ناز،محب وطن اور قدآورسیاستدان کو بھی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ ، جاگیردار اور سیاسی لقندروں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ایک سال ایک ماہ بعد وزارت عظمی سے مستعفی ہونا پڑا۔

18 اکتوبر1957 کو ابراہیم اسماعیل چندریگر( آئی آئی چندریگر) اور پھر 16 دسمبر 1957 کو ملک فیروز خان نون ملک کے وزیراعظم بنے ۔ میوزیکل چئیرز کا کھیل جاری تھا ۔ 

آئی آئی چندریگر اپنی تمام تر جمہوریت پسند خوبیوں کے باوجود جاگیر دار سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے آگے دو ماہ سے زیادہ نہ ٹہر سکے ۔ دوسری طرف ملک فیروزخان نون نے وزارت عظمی کے عہدہ پر متمکن ہوتے ہی ملک میں جاگیرداروں، وڈیروں اور بڑے بڑے زمینداروں کی معاشرے پر بالادستی مضبوط تر کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔

ادھر 1956 کے آئین کے تحت میجر جنرل سکندر مرزا کو صدر مملکت مقرر کردی گیا انہوں نے 17 اکتوبر 1958 کو ملکی آئین ، جمہوریت اور عام انتخابات کے وعدہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا  مگر عساکر پاکستان کے سپہ سالار یعنی اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان نے صرف 20 دنوں کےبعد ہی سکندر مرزا کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پھر پاکستان، وہ پاکستان جس کا خمیر جمہوری عمل سے گوندھا گیا تھا 8 جون 1962 تک مارشل لا کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہا۔

 بلاشبہ ملک کے  ان 11 برسوں کی تاریخ جمہوری اداروں پر جاگیرداروں، وڈیروں، نوابوں اور زمینداروں کے تسلط کی کہانی سناتی ہے مگر اس کھیل میں شریک لوگوں کی دوسرے الفاظ میں پارلیمینٹرینز کی اکثریت کا دامن مالی کرپشن سے کبھی آلودہ نہ ہوا۔  اپنی تمام تر سیاسی کوتاہیوں ، خامیوں اور بے وقوفیوں کے باوجود  انے دامن پر قومی و ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا دھبہ تک نہیں ۔

سیاست کی صاف وشفاف، بلند وبالا مملکت پر ’’ پارلیمانی خرمستیوں‘‘ کے سائے اس وقت لہرانا شروع ہوئے جب سیاست کے میدان  کے دروازے مخصوص مقاصد کے تحت تاجر اور کاروباری طبقے کے لئے کھول دیئے گئے۔ ( جاری ہے)