’’ کہ تم اک پارس ہو (3)‘‘

window rays
کیپشن: window rays
سورس: google

شہر بانو

جوابی لفظ زبان پر اٹک گئے تھے. کیسے بتاتی کہ جس کا ذکر کیا گیا تھا وہ اس گھر کا واحد مرد تھا، اس کی کمر کا زور، اس کا آسرا، اس کی بہن کا مان...
بھر سے وہی سوال دہرایا گیا تھا. اس کو حقیقت کی دنیا میں واپس آنے میں ایک لحظہ لگا تھا. نہ.. نہ.. نہیں!! بے بسی نے ہاتھ تھاما تو یہ حروف الفاظ کا روپ دھارتے ہوئے زبان سے ادا ہوئے
نہیں ابھی تو کوئی مرد موجود نہیں ہے، ارسلان ٹھیک تو ہے؟ کیا ہوا ہے اور اتنی اچانک یہ فون، سب خیر ہے؟
جتنے ایک سوال کیے جا سکتے تھے وہ ایک ہی سانس میں کرتی چلی گئی..
بڑے دکھ سے بتانا پڑ رہا ہے کہ آپ کا بیٹا اوور سپیڈنگ کی وجہ سے ایک جان لیوا حادثے کا شکار ہوا ہے. زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے. اس کے باقی ساتھی بھی  موت اور زندگی کی  جنگ لڑ رہے ہیں...
یہ الفاظ  پگھلے سیسے کی طرح اس کے کانوں میں اترتے چلے گئے ، الفاظ کی جگہ اب سسکیوں نے لے لی تھی۔ سانس لینا مشکل ہوا جارہا تھا۔
ماں کی سسکیاں جیسے ہی کمرے کی  دہلیز عبور کر کے گئیں، بہن دوڑی چلی آئی
کبھی کبھی انسان کی برداشت کی سکت ختم کر دی جاتی ہے، انسان قسمت کو سمجھنے کی آخری حد تک کوشش کرتے ہوئے زندگی کی نعمتوں پر سمجھوتہ کرنا شروع کر دیتا ہے، اور یہ وہی وقت تھا
زندگی کے قیمتی اثاثہ کو بچانا تھا، خدا سے نعم البدل کا تقاضا کیا گیا تھا. کہا گیا تھا کہ ہر نعمت لے لی جائے فقط اس کی سانسوں کو بحال رکھا جائے
جیسے ہی بہن نے دہلیز عبور کی ماں کو عجب حالت میں پایا. فون کان کے ساتھ لگا تھا، آنکھوں سے اشکوں کی قطار  دامن میں گر رہی تھی
اس نے آتے ہی ماں کو  جنجھوڑا ، گلے سے لگایا ،،،،
پتھرائی آنکھوں سے فون اس کے حوالے کیا گیا۔۔۔
دوسری جانب سے اسی مرد نے اسے سارا قصہ سنایا...
پیروں سے زمیں ایک ہی لمحے میں کھینچ لی گئی تھی، عرش سے فرش پر آنے میں دیر نہیں لگی تھی۔۔
اس کا مان، وہ جس کی شہہ پر اتراتی تھی، اس کے مقدر کی ڈھال، اس کے فیصلوں کا مالک زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا
فون یہ کہہ کر بند کر دیا گیا تھا کہ وہ دو گھنٹے میں اسلام آباد منتقل کر دیا جائے گا
مزید اس کی حالت کے بارے میں بارے میں نہیں بتایا گیا تھا، بھائی کی یادیں ذہن کے  ہرکسی کونے پر حاوی تھیں
وہ کیسے ایسے چھوڑ کر جا سکتا ہے، بابا کے بعد وہ وارث ہے ہمارا، یوں اس معاشرہ سے تنہا لڑنے کے لیے بھلا کیسے چھوڑ سکتا ہے؟
اس نے ہمیشہ ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا، وہ وعدہ شکن نہیں تھا. وہ، وہ.......

وہ وعدوں کو پورا کیا کرتا تھا. آس سے آسمان کو دیکھا گیا ، پلکیں امید کی طلبگار تھیں. وہ اٹھی اور جائے نماز اٹھائی. نفل کی نیت کی.
زبان پر صرف یہی الفاظ تھے، اسے بچا لو مولا. وہ میری ماں کا واحد اور کل اثاثہ ہے. بابا کو قسمت سے چھین لیا گیا تھا مگر یہ بابا کہ شبیہہ ہے، اسے اپنی امان میں رکھنا مولا.. 
دوسری جانب وہ اسلام آباد منتقل کر دیا گیا تھا. سانس اکھڑے ہوئے تھے. ڈاکڑ اپنی  ہر حد تک کوشش کر رہے تھے کہ امید کے دیے کو جلائے رکھا جائے۔۔۔
ماں اور بہن کو اطلاع دے دی گئی تھی، وہ ہسپتال پہنچنے ہی والی تھیں.ان کے لبوں پرحفاظت کی دعاوں نےاس  کو حصار میں لیا ہوا تھا۔۔۔
اس کے باقی ساتھیوں کو ہوش آگیا تھا مگر وہ ابھی بھی زندگی اور موت کے جھولے میں جھولتا جا رہا تھا۔۔
یہاں وہ ماں کی محبت، بے پناہ چاہت اور ہر لمحہ زبان سے نکلتی ہوئی دعاوں کے حصار میں تھا. اسے ہوش میں آنے میں دو دن لگے تھے۔۔
دعاؤں کے قبولیت کی گھڑی  تھی اود پھر اس نے دعاوں کو سن لیا تھا جو شہہ رگ سے سب زیادہ  قریب تھا
دعاؤں میں شکر کا اظہار بڑھا دیا گیا تھا. اسے بتایا گیا تھا کہ تم اک پارس ہو، ماں کی امید بہن کا مان ہو. تمہارا وجود انہیں اس معاشرہ میں سمیٹے رکھتا ہے. اسے احساس دلایا گیا تھا کہ اسے چار کاندھوں پر اٹھائے جانے سے بچا لیا گیا تھا
وہ دعائیں جو دہلیز پر پہرہ دے رہی تھیں وہ سن لی گئیں، اسے اور سانسوں کی مہلت مل گئی۔۔۔
اور پھر وہ تمہاری دعاؤں کو سن لیتا ہے، پلک چھپکنے سے پہلے، آخری لفظ کے دل سے زبان تک آنے سے پہلے تمہاری کی جانے والی دعائیں تمہارے یقین کی لاج رکھتی ہوئیں عرش تک جا پہنچتی ہیں۔۔۔
ایک بے یقینی کی لہر وجود سے دوڑتی ہوئی تمہارے صبر کو آزمائشں میں جیت جانے کی خوشخبری دیتی  ہے ۔۔۔
ضبط یہ منظر کسی دور مکاں کی چھت سے ننھے بچے کی مانند ایڑھی اٹھاتا منظر کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

۔۔
آنسو آنکھوں کی بنیادوں پر عین کسی محل کی حفاظت کے لیے تعینات  سپاہی کی طرح پہرہ دے رہے ہوتے ہیں۔۔
تمہارا یقین عین اس بچے کی آنکھوں میں چمکتے تارے کی طرح جو کسی امتحان میں فتح حاصل کر کے ماں کے پہلو میں بیٹھا ہو، جگمگا رہا ہوتا ہے۔۔
اور تم اسی خوشی میں رقص کرتے پھرتے ہو کہ وہ سن رہا تھا تمہیں، تمہارے الفاظ کو۔۔۔
شہہ رگ سے بہت قریب تھا وہ تمہاری دعاؤں کو سنتے ہوئے۔۔ (ختم شد)