ایک نیوز نیوز:وہالی کی چنڈی گڑھ یونیورسٹی سے وابستہ ایم ایم ایس اسکینڈل کے حوالہ سے طلبا مشتعل، احتجاج جاری، ویڈیو لیک کے معاملہ میں اب تک ملزم طالبہ سمیت 3 افراد کو گرفتار کرلیا گیا، یونیورسٹی کو 24 ستمبر تک بند کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چندی گڑھ یونیورسٹی نے فحش ویڈیو معاملے کے بعد لاپرواہی کے الزام میں دو وارڈن کو معطل کردیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے پانچ اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی کی تشکیل کی ہے، جو یونیورسٹی انتظامیہ کو پورے حادثے سے متعلق اپنی رپورٹ سونپے گی۔ اس واقعے کے خلاف ہفتہ کے بعد یونیورسٹی کے باہر احتجاج جاری ہے۔ کچھ طلبا رات بھر دھرنے پر بیٹھے رہے۔
پنجاب پولیس کے ڈی جی جی ایس بھلر نے خود احتجاج کرنے والے طلبا سے بات کر کے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ اعتماد ضروری ہے اور قانون پر عمل کیا جا رہا ہے۔ ہم آپ کے پاس آتے رہیں گے ۔
اے این آئی سے بات کرتے ہوئے ڈی آئی جی بھلر نے کہا کہ پہلے رابطے کی کمی تھی اور پولیس اسے پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ملزم طالبہ پہلے ہی پولیس کی حراست میں ہے۔ پولیس نے ویڈیو وائرل کرنے کے الزام میں نوجوان کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ ملزم نوجوان شملہ کے علاقے روہڑو سے پکڑا گیا۔ ملزم نوجوان 23 سال کا ہے اور اس کے قبضہ سے 4 موبائل فون برآمد ہوئے ہیں۔ ملزم کو پنجاب پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس نے ملزم کے ایک ساتھی کو بھی پکڑا ہے، جس کی عمر 31 سال بتائی جاتی ہے۔
Chandigarh University is trying to manipulate the case and punjab police and media are helping them to cover up the issue.#TruthBehindTheClaims#justiceforcugirls#CBI_In_Chandigarh_University#punjabpolice#chandigarhuniversitymms@UUlalitCJI @cbic_india@SachinPilot pic.twitter.com/dK58JzbKOP
— निशांत (@Spoiledbrahmin) September 18, 2022
واضح رہے کہ موہالی میں واقع چندی گڑھ یونیورسٹی نامی نجی تعلیمی ادارے کے ہاسٹل میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات اس وقت ہنگامہ شروع ہوا جب وہاں رہنے والی طالبات کو معلوم ہوا کہ ہاسٹل کی 60 طالبات کی نازیبا وڈیوز کو وائرل کیا گیا تھا۔ہنگامے کے دوران ہی کم از کم 8 لڑکیوں نے خودکشی کی کوشش کی ہے جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔
ویڈیو بنانےکےمعاملے میں یونیورسٹی کی ہی لڑکی ملوث
میڈیا رپورٹس کے مطابق وڈیوز بنانے والی کوئی اور نہیں بلکہ یونیورسٹی میں پڑھنے اور اسی ہاسٹل میں رہنے والی ایک لڑکی ہے جس نے وڈیوز بنا کر ایک لڑکے کو بھجوائیں۔
ہاسٹل کی لڑکیوں نے ویڈیو بنانے والی لڑکی سے پوچھ گچھ کی۔ لڑکی نے طالبات کو کہا ہے کہ اس نے دباؤ میں ویڈیو بنائی، وڈیو بنانے والی لڑکی ہی نے ایک لڑکے کا نام اور تصویر دکھا کر اسے ماسٹر مائنڈ قرار دیا۔
ہاسٹل منیجر کے سامنے پہلے تو وڈیو بنانے والی لڑکی نے فوٹو یا ویڈیو بنانے سے انکار کر دیا لیکن جب لڑکی کا موبائل فون چیک کیا تو پتہ چلا کہ اس نے کئی وڈیوز اور تصاویر ڈیلیٹ کی ہیں جسے بعد میں ریکور کیا گیا۔ لڑکی ہی کے فون کے ذریعے اس لڑکے کا بھی سراغ لگالیا گیا۔
ساری صورت حال واضح ہونے پر یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس میں شکایت درج کرائی۔ اس معاملے میں پولیس نے ملزم طالب علم اور اس کے ساتھی کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
اس معاملے میں درج پولس ایف آئی آر کے مطابق ہفتہ کی سہ پہر تین بجے کچھ لڑکیاں ہاسٹل وارڈن راجویندر کور کے پاس پہنچیں۔ انہوں نے شبہ ظاہر کیا کہ ملزم طالب علم واش روم میں 6 لڑکیوں کی ویڈیو بنا رہا تھا۔ وارڈن راجویندر کور نے لڑکی سے پوچھ گچھ کی۔ اس کے بعد یونیورسٹی کی گرلز ہاسٹل منیجر ریتو کو اس کی اطلاع دی گئی۔ ریتو نے یہ سب لانے کو کہا۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد یونیورسٹی کی لڑکیاں مشتعل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہاسٹل میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہیں۔ انہوں نے ہاسٹل انتظامیہ پر معاملے کو دبانے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔
طالبات کا کہنا تھا کہ ملزم لڑکی سب کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے والی تھی لیکن انتظامیہ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔