سائفر بیانیہ ایک ڈرامہ: اعظم خان عمران خان کیخلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے

سائفر بیانیہ ایک ڈرامہ: اعظم خان چیئرمین تحریک انصاف کیخلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے
کیپشن: Cypher Bayaniya A drama: Azam Khan became a sworn witness against Chairman Tehreek-e-Insaf

ایک نیوز: اعظم خان کا 164 کا بیان!!! امریکی سائفر کی کہانی، سابق پرنسپل سیکرٹری کی زبانی۔ اعظم خان نے سائفر کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ دی۔ سابق وزیراعظم کے سیاسی بیانیے کا دھڑن تختہ ہوگیا۔

تفصیلات کے مطابق اعظم خان نے 164 کے تحت اپنا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروادیا۔ جس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے غیرملکی سازش کے بیانیے کو ایک ڈرامہ قرار دیا گیا ہے۔

اعظم خان کے بیان کے اہم نکات:

ذرائع کے مطابق بیان میں کہا گیا ہے کہ 8 مارچ 2022 کو سیکرٹری خارجہ نے محمد اعظم خان سے رابطہ کیا اور سائفر کے حوالے سے آگاہ کیا۔ جسے اسی شام ان کی رہائش گاہ پر روانہ کر دیا گیا۔ سیکرٹری خارجہ نے انہیں بتایا کہ وزیر خارجہ قریشی پہلے ہی عمران کے ساتھ سائفر پر بات کر چکے ہیں جس کی تصدیق عمران خان نے اگلے روز اس وقت کی جب محمد اعظم خان نے انہیں سائفر پیش کیا۔ سائفر کو دیکھ کر عمران خان نے خوشی کا اظہار کیا اور اس زبان کو US بلنڈر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے خلاف بیانیہ تیار کرنے کے لیے سائفر کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔

عمران خان نے محمد اعظم خان کو یہ بھی بتایا کہ اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک میں غیر ملکی شمولیت کی طرف عام لوگوں کی توجہ دلانےکے لیے سائفر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد عمران خان نے محمد اعظم خان سے سائفر ان کے حوالے کرنے کو کہا، جو انہوں نے کر دیا۔ (کرپٹو دستاویزات کے حوالے کرنے کے لیے ہدایات اور ضابطے موجود ہیں، بظاہر یہاں خلاف ورزی ہوئی تھی)۔ محمد اعظم خان کے اعتراف کے مطابق، سائفر کاپی عمران خان نے اپنے پاس رکھی اور اگلے دن (10 مارچ 2022) جب انہوں نے اسے مانگا تو عمران خان نے جواب دیا کہ ان سے گم ہو گیا ہے (یہاں عمران خان کا ویڈیو کلپ شامل کر سکتے ہیں جہاں وہ کہتے ہیں وہ نہیں جانتا کہ سائفر کاپی کہاں ہے)۔  

محمد اعظم خان نے اعتراف کیا کہ عمران خان نے ان سے کہا تھا کہ وہ اسے عوام کے سامنے پیش کریں گے اور اس بیانیے کو توڑ مروڑکر پیش کریں گے کہ مقامی شراکت داروں کی ملی بھگت سے غیر ملکی سازش رچائی جا رہی ہے ۔اس پر محمد اعظم خان نے مشورہ دیا کہ سائفر ایک خفیہ کوڈڈ دستاویز ہے اور اس کے مواد کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا اور اس کے بعد وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ سے باضابطہ ملاقات کی تجویز دی جہاں وہ MOFA کی کاپی سے سائفر پڑھ سکتے ہیں (کیونکہ عمران خان کی اصل کاپی ابھی تک گم تھی)۔ اور میٹنگ کے منٹس سے مزید فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

 28مارچ 2022 کو اجلاس بنی گالہ میں منعقد ہوا، جہاں سیکرٹری خارجہ نے وزارت خارجہ کی ماسٹر کاپی کا سائفر پڑھ کر سنایا اور اجلاس کے تمام مباحث اور فیصلوں پر غور کیا گیا اور اس معاملے کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 30 مارچ 2022 کو کابینہ کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا، جہاں وزارت خارجہ کے نمائندے نے دوبارہ سائفر پڑھا اور کابینہ کو بریفنگ دی۔ اس پر بھی منٹ ہو گئے۔ اس معاملے کو قومی سلامتی کمیٹی میں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 

31 مارچ 2022 کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جہاں مذکورہ بالا عمل کو دوبارہ دہرایا گیا اور قومی سلامتی ڈویژن کی طرف سے اس پر غور کیا گیا۔ محمد اعظم خان کے مطابق وزارت خارجہ سے موصول ہونے والے تمام سائفرز جے JS FSA (وزیراعظم کے دفتر میں وزارت خارجہ کے نمائندے) کو واپس کردیئے گئے ہیں، تاہم، جب تک وہ پرنسپل سیکریٹری تھے، وزیراعظم عمران خان کا کھویا ہوا سائفر واپس نہیں کیا گیا۔ کیونکہ عمران خان نے اسے کھو دیا تھا اور بار بار کہنے کے باوجود واپس نہیں کیا۔

اعظم خان کے بیان پر پی ٹی آئی کا ردعمل:

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پی ٹی آئی نے اعظم خان کے بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ اعظم خان گزشتہ ایک ماہ سے اغوا ہیں، ان کے اہل خانہ عدالتوں میں ان کی رہائی کے لیے دھکے کھا رہے ہیں اور ان کے اغوا کی تصدیق رانا ٽنا اللہ بھی کر چکا ہے۔ 

اس کے باوجود ایک مغوی شخص سے مرضی کے بیان لینے کی خبر چلانے والے اس قوم کے اجتماعی شعور کی توہین کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ یہ مکروہ اور غلیظ حرکات سازشیوں کے سیاہ چہرے مذید بےنقاب کریں گی۔ سائفر کے معاملے پر آزادانہ تحقیقات کے لیے چئیرمین تحریک انصاف کی بطور وزیراعظم چیف جسٹس کو بھیجی گئی درخواست اب تک زیرالتوا ہے جس پر فوری تحقیقات شروع کرنی چاہئیں۔

اعظم خان کے بیان پرافتخار درانی اور فرخ حبیب کا ردعمل:

پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب اور افتخار درانی نے اعظم خان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سائفر ایک حقیقت ہے اس پر دو قومی سلامتی کے اجلاس ہوئے ایک عمران خان کی سربراہی میں اور دوسرا شہباز شریف کی سربراہی میں ہوا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلہ پر سائفر پر ڈیمارش کیا گیا پھر ہم تو اس پر شروع سے مطالبہ کررہے ہیں۔ 

افتخاردرانی نے بھی کہا کہ سائفر کی تحقیقات سپریم کورٹ آف پاکستان کے تحت آزادانہ کمیشن میں ہونی چاہیے۔ موجودہ حکومت تحقیقات سے کیوں راہ فرار اختیار کرتی رہی ہے۔ آج پھر سائفر پر سپریم کورٹ کے تحت آزادانہ تحقیقات کا ہمارا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ سپیکر اور صدر مملکت دونوں نے الگ الگ چیف جسٹس آف پاکستان کو سائفر کی تحقیقات کے لئے خطوط بھی لکھے لیکن کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔