ایک نیوز: خاتون جج دھمکی کیس میں چیئرمین تحریک انصاف نے عدالت کے روبرو معافی مانگ لی۔
تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کےخلاف خاتون جج دھمکی کیس کی سماعت اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ہوئی۔ چیئرمین تحریک انصاف جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان کی عدالت میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں لکھا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ خاتون جج پر کیس کرنا ہے، ماتحت عدالتوں کے اوپر اعلیٰ عدلیہ موجود ہیں، کوئی بھی کیس کر سکتا ہے،الزام لگایا گیا کہ شہباز گِل کی گرفتاری پر ایف 9 پارک کے جلسے میں کارِ سرکار میں مداخلت کی گئی، الزام لگایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے جملوں سے ملک میں انتشار پیدا ہوا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شہباز گِل کو مارا گیا، ان پر پریشر ڈالا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف گواہی دو، کرکٹ کے بعد اب چیئرمین پی ٹی آئی عدالتوں کے بھی خوب عادی ہو گئے ہیں، عموماً کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال پر مقدمات درج ہوتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کرپشن کے شواہد نہیں ملے تو ایسے مقدمات بنا دیے گئے، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ، ممنوعہ فنڈنگ، غداری اور دہشت گردی جیسے کیسز بنائے گئے۔
دورانٍ سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان نے کمرۂ عدالت میں موجود افراد کو شور کرنے سے روک دیا۔
وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں خاتون جج دھمکی کیس سے متعلق مختلف عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ تمام کیسسز میں مدعی، فریق اور تفتیشی پولیس ہی ہیں،اس کیس میں متاثرہ فریق آئی جی صاحب ہے، مگر شکایت کنندہ پولیس ہے،سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ سیاسی شخصیات کو ایسے بیانات نہیں دینے چاہیے تھے،درخواست گزار کے خلاف 71 سالہ زندگی میں کبھی کوئی کریمنل کیس درج نہیں ہوا۔
درخواست گزار نے کہا میری عمر صحیح بولے،سلمان صفدر کے جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اس کیس میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا جو بنتا ہی نہیں تھا،میٹیریل دیکھے بغیر کہا گیا کہ درخواست گزار شامل تفتیش ہو،درخواست گزار نے جج صاحبہ کو لیگل ایکشن لینے کا کہا تھا، درخواست گزار کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5رکنی بینچ نے توہین عدالت کا نوٹس لیا تھا،5رکنی بینچ نے کہا کہ کریمنل توہین عدالت بنتی نہیں اور کیس ختم ہوگیا،درخواست گزار سینئر وکلا کے ساتھ جج صاحبہ کی عدالت معافی مانگنے گئے،جس دن درخواست گزار جج صاحبہ کی عدالت گئے تو جج صاحبہ موجود نہیں تھی،اگر کوئی یہ کہیں کہ آپ کے خلاف کیس کرنا ہے تو اس میں کیا غلط ہے؟ توہین عدالت کیس ختم ہونے کے بعد جج صاحبہ سے معافی مانگی گئی تو اب بچا کیا ہے؟
سلمان صفدر نے کہا کہ میں یہ کہونگا کہ عبداللہ کیوں دیوانہ ہوتا ہے کسی اور کی شادی میں،مقدمہ میں درخواست گزار کی لائن 2 جبکہ مجسٹریٹ صاحب کی 10لائن ہے،اس کیس میں مجسٹریٹ براہ راست متاثر ہی نہیں،پراسیکوشن کا ابتدائی کیس 7 اے ٹی اے کا ختم ہوچکا،درخواست گزار کی جانب سے شکوہ ہے کہ ایک سال سے یہ کیس زندہ کیوں ہے؟اس کیس میں نہ کوئی شواہد آئے نہ ہی کوئی گواہ آیا،اس کیس میں نہ جج زیبا صاحبہ اور نہ ہی آئی جی صاحب گواہی دینے آئے،روز ہماری پیشی ہوتی ہیں، وارنٹ نکل آتے ہیں، ایسا کیوں؟ نہ ایم ایل سی ہے، نہ ہی کوئی زخمی ہے تو کس چیز کے چارج فریم کریں گے؟161 کا بیان ریکارڈ کیے بغیر قانونی شواہد کیسے ہوسکتے ہیں؟
سلمان صفدر نے کہا کہ اس کیس میں آپ کے پاس گواہ نہیں اور ٹرائل کرنا ہے تو آپکا شوق پورا نہیں کیا جاسکتا،یہ وہ بات نہیں کہ انڈین فلم کی طرح آئی جی کمرہ عدالت آئیں گے اور بیان دیں گے،یہ سیاسی مقاصد کے لیے بنایا گیا کیس ہے،چالان اور شواہد دونوں ہی اس کیس میں غائب ہیں۔
جوشِ خطابت میں قانونی کارروائی کرنےکا کہا:سربراہ پی ٹی آئی
اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ میں نے 27 سال قبل انصاف کی بالا دستی کے لیے سیاسی جماعت بنائی، میں نے آج تک ایک گملا بھی نہیں توڑا، میں خاتون جج کی عدالت گیا اور کہا کہ میرے بیان سے کسی کی دل آزاری ہوئی تو اس پر معافی مانگتا ہوں، میں نے اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے جوشِ خطابت میں قانونی کارروائی کرنے کا کہا، میں نے جو کہا اس پر جج صاحبہ سے معافی بھی مانگنے گیا تھا، اگر میں نے لائن کراس کی ہے تو میں معافی مانگتا ہوں۔