ایک نیوز: اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق نے نصابی کتب میں غلطیوں کیخلاف درخواست میں سیکرٹری تعلیم اور چئیرمین فیڈرل بورڈ کو طلب کر لیا۔
رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں خاتون وکیل کی نصاب کی عدم نگرانی اور سٹینڈرڈ آف ایجوکیشن ایکٹ پر عملدرآمد کیلئے دائر درخواست پر سماعت کی ۔ سماعت کے دوران درخواست گزار نے موقف اختیار کیاکہ نصاب میں غلطیاں بھی موجود ہیں جو کہ بچوں کو پڑھاتے ہوئے نظر آیا۔
دوران سماعت فریقین کے وکلاء کی جانب سے عدالتی سوالات کا جواب دینے میں ناکامی پر چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے استفسار کیاکہ نصاب ڈیزائن کون کرتا ہے؟ اس پر فیڈرل بورڈ کے وکلاء سمیت افسران کوئی جواب نہیں دے سکا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ لوگوں کو اپنے کیس کا ہی پتہ نہیں؟سادہ سا سوال پوچھا ہے بتا دیں کون نصاب تیار کرتا ہے؟
درخواستگزار نے بھی یہی کہا کہ اسے پتہ نہیں چل رہا کون نصاب بنا رہا ہے،آپ لوگوں کو کچھ پتہ نہیں کہ کون نصاب بنا رہا ہے تو سیکرٹری کو بلاتے ہیں۔عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ بانیِ پاکستان محمد علی جناح سنہ 1876 میں پیدا ہوئے تھے تاہم پاکستان کے صوبہ پنجاب کے نجی سکولوں کے لیے موجود نصاب کی ایک کتاب میں ان کا سنہ پیدائش 1976 لکھا گیا ہے۔
اسی طرح ایک کتاب میں لکھا گیا کہ پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال اکتوبر کے مہینے میں پیدا ہوئے اس بات سے قطع نظر کہ درحقیقت وہ نو نومبر کو پیدا ہوئے تھے۔ اسی کتاب میں یہ بھی لکھا گیا کہ انھوں نے ایم اے انگریزی کی ڈگری گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی۔
صوبہ پنجاب میں نصاب اور نصابی کتب کے منتظم ادارے ’پنجاب کریکیولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ‘ کے مطابق علامہ اقبال نے ڈگری انگریزی میں نہیں فلسفے میں حاصل کی تھی۔
ان کتابوں میں ’حقائق کے منافی، غلط، غیر اسلامی، پاکستان مخالف اور گمراہ کُن معلومات شائع کی گئی ہیں۔‘