ویب ڈیسک: بلوچ طلباء کی عدم بازیابی کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم اور وزرا جواب نہیں دے سکتے تو انہیں عہدے سے ہٹانا چاہیے۔
تفصیلا ت کے مطابق بلوچ طلبہ عدم بازیابی کیس میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ عدالت کے طلب کرنے کے باجود دوسری بار بھی پیش نہیں ہوئے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم دوسری دفعہ بھی نہیں آئے، نگران وزیراعظم سے پوچھ لیں، ان کو اس لیے بلایا تھا کیونکہ وہ جواب دہ ہیں، سیکرٹری دفاع ، سیکرٹری داخلہ، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی سرکاری ملازم ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ یہ سب افسران جواب دہ ہیں کوئی قانون سے بالاتر نہیں، اپنے ملک کے شہریوں کی بازیابی کے لیے 2 سال لگے۔ نگران وزراء ، سیکرٹری دفاع ، سیکرٹری داخلہ کدھر ہیں؟
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ 12 لاپتہ طلبہ ابھی بازیاب نہیں ہوئے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میری معلومات کے مطابق 8 طلبہ بازیاب نہیں ہوئے۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس میں کہا کہ 3 حکومتیں ابھی تک لاپتہ بلوچ سٹوڈنٹس کی بازیابی کے لیے کچھ نہیں کر سکیں۔ مسنگ پرسنز کے اور بھی حساس کیسز سنتے ہیں۔ یا پھر ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار ہیں یا آپ ان افراد کے خلاف کرمنل کیسز کی تفصیل بتائیں۔ یہ لوگ خود بھاگ گئے یا کسی تیسرے نے اغوا کیا۔ اس صورت میں پھر ریاستی اداروں کی ناکامی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ نئی حکومت آئے گی انہیں پالیسی بنانے کا وقت دیں۔جسٹس محسن نے استفسار کیا کہ وہ کیا کہیں گے کہ جبری گمشدگیاں ہونا چاہیے ہیں؟ کچھ اداروں کو جو استثنا ملا ہوا ہے وہ نہیں ملنا چاہیے۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیئے کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ایم پی او آرڈرز کو غلط استعمال کرتے رہے۔ اب عدالتی فیصلے کے بعد وہ توہین عدالت کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔