ایک نیوز نیوز: چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ پر اب میری تنقید کی وجوہات سادہ ہیں۔حکومت میں جنرل باجوہ کیخلاف بات اس لئے نہیں کی کہ ڈر تھا مجھ پر آرٹیکل 6 لگادیں گے۔ ہماری حکومت جانے سے 3 ماہ پہلے اسٹیلبشمنٹ سے اچھے تعلقات تھے۔سمجھ نہیں آیا سب اچھا ہونے کے باوجود ہماری حکومت ہٹا کر چوروں کو کیوں مسلط کیا گیا ۔ خبر ہے کہ یہ الیکشن کمیشن سے مل کر مزید ایک ، ڈیڑھ سال تاخیر کیساتھ الیکشن کروائیں گے۔پرویز الہیٰ ہمارے ساتھ ہیں ، انہوں نے میرےسامنے کوئی اختلاف والی بات نہیں کی۔
لاہور میں صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف پر تنقید کو بعض اوقات فوج پر تنقید کے طور پر لیا جاتا ہے، چنانچہ جنرل باجوہ پر تنقید سے گریز کرتے رہے۔ سابق وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ کبھی فوج کو بدنام نہیں کرنا چاہتے کیونکہ مضبوط فوج پاکستان کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے بڑے مجرموں کا احتساب کیا جائے مگر بدقسمتی سے نیب کو جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کنٹرول کرتے تھے۔ ابتداء میں انکار نہیں کیا گیا مگر بالآخر ہمیں کہا گیا کہ معیشت پر دھیان دیں اور احتساب کے بارے میں فکر مند ہونا چھوڑ دیں۔ جنرل باجوہ نے ہی اصل میں ہمیں ان لوگوں کو این آر او دینے کا کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ میری سیاسی جدوجہد قانون کی بالادستی کیلئے رہی ہے، میری زندگی کا ایک حصہ اس معاشرے میں گزرا ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے، ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی نہیں چنانچہ خوشحالی اور جمہوریت سے محروم ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ خوشحالی و جمہوریت کے حصول کیلئے قانون کی حکمرانی لازم ہے، جس ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں سرمایہ کاری نہیں آ سکتی، سب سے بڑی سرمایہ کاری بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے آسکتی ہے، اقتدار میں آیا تو کہا کہ بے لاگ احتساب نہایت ضروری ہے مگر کہ نیب نے کمزور کا تعاقب، طاقتور کے ساتھ لین دین کا سلسلہ شروع کیا۔
سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ کیا کسی سے پاس جواب ہے کہ 70 برس میں سب سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی حکومت کو کیوں گرایا گیا۔ کوئی جواب دے سکتا ہے کہ مجرموں کو کیوں لاکر بٹھایا گیا۔
عمران خان نے کہا کہ حکومت میں لانے کے بعد کس نے ان مجرموں کو 5 ارب ڈالرز کے مقدمے معاف کرنے کی اجازت دی گئی۔ میرے لئے یہ تصور محال ہے کہ کوئی ملک کو اتنا نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے۔