ایک نیوز: صدر مملکت عارف علوی نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیئے۔
تفصیلات کے مطابق دونوں بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہو چکے ہیں،صدر مملکت کو دونوں بل گزشتہ حکومت نے بھیجے تھے۔
صدر مملکت کے دستخط کے بعد دونوں بلز قانون کی شکل اختیار کر گئے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے اہم نکات
آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل کے مطابق کوئی شخص جو جان بوجھ کر امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرتا ہے، ریاست کے خلاف کام کرتا ہے، ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا یا نقصان پہنچاتا ہے جس کا مقصد براہ راست یا بالواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچانا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوگا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے تحت الیکٹرانک یا جدید آلات کے ساتھ یا ان کے بغیر ملک کے اندر یا باہر سے دستاویزات یا معلومات تک غیر مجاز رسائی حاصل کرنے والا مجرم تصور ہوگا، پاکستان کے اندر یا باہر ریاستی سکیورٹی یا مفادات کے خلاف کام کرنے والے کے خلاف بھی کارروائی ہوگی، ان جرائم پر 3 سال قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملزم کا ٹرائل خصوصی عدالت میں ہو گا اور خصوصی عدالت 30 دن کے اندر سماعت مکمل کرکے فیصلہ کرے گی۔
آرمی ایکٹ کے اہم نکات
آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفے یا برطرفی کے 2 سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا جبکہ حساس ڈیوٹی پر تعینات فوجی اہلکار یا افسر ملازمت ختم ہونے کے 5 سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔
آرمی ترمیمی ایکٹ کے مطابق خلاف ورزی کرنے والے اہلکار کو 2 سال تک قید با مشقت کی سزا ہو گی جبکہ حاضر سروس یا ریٹارڈ فوجی اہلکار ڈیجیٹل، الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پر کوئی ایسی بات نہیں کرنے گا جس کا مقصد فوج کو اسکینڈلائز کرنا یا اس کی تضحیک کرنا ہو، جرم کرنے والے کے خلاف کارروائی آرمی ایکٹ کے تحت ہو گی، سزا الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت ہو گی۔
آرمی ایکٹ کے تحت کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ اہلکار اگر فوج کو بدنام کرے یا اس کےخلاف نفرت انگیزی پھیلائے گا اسے آرمی ایکٹ کے تحت 2 سال تک قید اور جرمانہ ہو گا۔
آرمی ایکٹ سیکشن 26 اے میں ایک نئے سیکشن کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے مطابق سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات جو پاکستان اور افواج کی سکیورٹی اور مفاد سے متعلق ہو افشا کرے گا اسے پانچ سال قید بامشقت تک کی سزا ہو سکے گی، البتہ آرمی چیف یا بااختیار افسر کی جانب سے منظوری کے بعد غیر مجاز معلومات دینے پر سزا نہیں ہو گی، راز افشا کرنے والے شخص کو آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم پاکستان، نیشنل پارٹی اور پی کے میپ بشمول کے علاوہ مسلم لیگ ن کے ڈاکٹر افنان اللہ سمیت کئی سینیٹرز نے بل کے خلاف احتجاج کیا تھا جس پر چیئرمین سینیٹ نے ارکان کے احتجاج پر بل قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا تھا۔
بعد ازاں سینیٹ میں آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ سے کچھ متنازع شقیں نکال کر دوبارہ پیش کیا گیا جسے سینیٹ نے منظور کیا پھر قومی اسمبلی نے بھی ترمیم شدہ بل کی منظوری دیکر اسے قانون بنانے کے لیے سمری صدر پاکستان کو ارسال کر دی تھی۔