خالد کاشمیری
پاکستان 14 اگست 1947 کو کرہ ارض پرحقیقت بن کرابھرا۔ حصول آزادی کے ایک سال ایک ماہ گیارہ دن بعد ارض وطن اور اس کےباسیوں کو جس صدمے نے نڈھال کرکے رکھ دیا وہ تھا بابائے ملت بانی پاکستان حضرت قائداعظم کی رحلت۔۔ اس سانحہ عظیم کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنی ذاتی وجاہتوں کو کو بروئے کار لا کر ملکی سلامتی ، اسکے دفاع واستحکام کے تقاضوں کو پورا کرنے میں دن رات ایک کردیا۔ مگر تقریبا چار برس بعد ہی 17 اکتوبر 1951 کو خدامعلوم کئی بیرونی طاقتوں کے اشارے پر انہیں اپنوں کے درمیان لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہ عام میں گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا۔
اس وقت پاکستان کی پہلی مجلس آئین ساز 79ارکان پر مشتمل تھی جسے قومی اسمبلی بھی کہہ سکتے ہیں اس وقت پاکستان خیبر سے چاٹگام تک کے وسیع و عریض خطے پر مشتمل تھا اورآئین ساز اسمبلی کا قیام پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل 1946 میں ہونے والے انتخابات کی بنیاد پرعمل میں آیا تھا ان انتخابات میں قائم میں ہونے والی صوبائی اسمبلیوں نے آئین ساز اسمبلی کے لئے 69 ارکان کا انتخاب کیا تھا اور اس میں نامزدگی کے لئے مزید دس ارکان شامل کئے گئے تھے یہ مجلس قانون ساز اور آئین ساز 10 اگست 1947 سے 24 اکتوبر1954 تک کام کرتی رہی۔ اگرچہ سات برس کی اسی مدت میں اس اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظورکرنے کے سوا قانون سازی کا کوئی قابل ذکر کام نہ کیا مگر اس کےتمام ارکان کا دامن ہرقسم کے لہو ولعب سےپا ک اور صاف تھا ۔ گورنر جنرل غلام محمد نے مخصوص مفادات کے تحت 24 اکتوبر 1954 کو اس اسمبلی کو توڑ دیا اور ان کے حکم کے تحت جون 1955 میں دوسری مرکزی اسمبلی قائم کی گئی یہ اسمبلی بھی پہلی طرح بالواسطہ طریق انتخاب (صوبائی اسمبلیوں کو انتخابی ادارہ بنا کر) کے ذریعے وجود میں آئی تھی اسی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 80 کردی گئی تھی ۔ جس میں اس وقت کے پاکستان کے دونوں صوبوں ( مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لئے) مساوی نیابت کے اصول کو اپناتے ہوئے برابرکی نمائندگی دی گئی تھی۔
اس ضمن میں یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں 31 وکلا اور 27 بڑے جاگیردار تھے وکلا کی زیادہ تعداد مشرقی پاکستان ( آج کے بنگلہ دیش) سے تعلق رکھتی تھی جبکہ دوسری اسمبلی کے تمام بڑے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں کا تعلق مغربی پاکستان ( آج کے پاکستان) سے تھا۔ مغربی پاکستان کے ان جاگیر داروں اور زمین داروں کی تعداد 28 ہوگئی تھی ۔ ان 28 جاگیر داروں کے علاوہ مغربی پاکستان کے باقی ارکان میں صرف تین وکلا پانچ ریٹائر سرکاری افسر اور چار ارکان تجارت وصنعت کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔
امرواقعہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعدتمام صوبوں میں صوبائی انتخابات آئین کے بغیر پایہ تکمیل تک پہنچے۔ 1949 میں پنجاب میں نواب ممدوٹ کی پہلی وزارت توڑے جانے کے بعد سے لے کر 1955 تک کے سیاسی حالات ایک الگ داستان رکھتے ہیں تاہم جون 1955 میں صوبائی اسمبلیوں کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی مرکزی اسمبلی میں سید حسین شہید سہروردی اور مولوی اے کے فضل حق ایسے قد آور،پر خلوص ،محب وطن اور بےلوث و ایثار پیشہ رہنما داخل ہوئے جو قومی اسمبلی میں مغربی پاکستان کے سیاسی وزیروں اور جاگیرداروں کے طاقتور حریف ثابت ہوئےمگر اس وقت کی مرکزی مسلم لیگی حکومت نے چند ماہ میں ہی فضل الحق کی سربراہی میں قائم مشرقی پاکستان میں متحدہ محاذکی حکومت توڑدی اور صوبے کی منتخب اسمبلی کا اجلاس بھی نہ ہونے پایا تھا کہ کسی جواز کے بغیر مشرقی پاکستان میں گورنرراج نافذ کردیا گیا۔
تاریخ اس لعنت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے کہ 1955 کی مرکزی اسمبلی میں موجود 28 جاگیرداروں اور وڈیروں کا تعلق آج کے پاکستان (مغربی حصہ) سے تھا۔ اس کے برعکس اسی مرکزی اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے منتخب ہوکر آنے والے ارکان میں 20 معروف وکلا اورر 8 ریٹائر اعلی افسر تھے مشرقی پاکستان سے کسی بڑے زمیندار اور وڈیرے کے منتخب ہوکر نہ آنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کی سابق اسمبلی نے 1950 ہی میں اصلاحات اراضی کا قانون منظورکرکے جاگیر داری اور بڑی زمینداری نظام کا خاتمہ کردیا تھا۔ اس قانون کے تحت مشرقی پاکستان میں 1950 میں 33 ایکڑ فی کنبہ یا دس بیگھہ فی فرد کے حساب سے اراضی چھوڑ کر باقی ان سے لے کر بے زمین کاشتکاروں میں تقسیم کردی گئی جس کے نتیجے میں وڈیروں کا مزارعین پر دباؤ نہ چل سکا۔
وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھتا رہا ۔ ملکی قیادت میں اعلی سطح پر تبدیلیاں وقت کے تقاضوں کی روشنی آتی چلی گئیں غلام محمد پاکستان کے گورنر جنرل اور خواجہ ناظم الدین پاکستان کے وزیراعظم تھے بلاشبہ انہیں بطور وزیراعظم پاکستان مسلم لیگ کے پارلیمانی قائد کی حیثیت حاصل تھی اور انہیں پاکستانی مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا تھا مگر مسلم لیگ پر جاگیرداروں ، وڈیروں اور ان کے حاشیہ برداربیوروکریسی کے کل پرزوں کی انتظامی مشینری پرگرفت اس قدر حاوی ہوچکی تھی کہ ان سبھی کے گٹھ جوڑ نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اپنی تمام تر ذاتی وجاہت، وضعداری ، شرافت ، جمہوریت پسندی اور حب الوطنی کے باوجود پیش آمدہ مسائل پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہونے دیا۔بعض مخصوص بیوروکریٹس کے دباؤ پر چودھری محمد علی کو وزیرخزانہ کا قلمدان دلوا دیا گیا جو اس وقت پاکستان کے سیکرٹری جنرل اسٹیبلشمنٹ تھے درحقیقت یہیں سے پاکستان کی انتظامیہ میں بیوروکریسی کا کھلے بندوں عمل دخل شروع ہوگیا۔
پاکستان مسلم لیگ کی تاریخ کو اس وقت کے مسلم لیگیوں نے اپنے اقدام سے جس طرح داغ دار کیا اس پر سیاسی اور اخلاقی اقدار ہمیشہ ماتم کناں رہیں گی وہ یہ کہ 1953 کی درپردہ سازشوں سے خواجہ ناظم الدین کی حکومت ختم کی گئی اس وقت کے مسلم لیگیوں نے دیوالیہ پن کا مظاہرہ یہ کیا کہ اپنے صدر کی عہدہ وزارت عظمی سے برطرفی کے گورنر جنرل کے اقدام کی نہ صرف برملا تائید کی بلکہ اسے بھرپور حمایت سے بھی نوازا۔