ایک نیوز :سپریم کورٹ نے وزارت دفاع اور الیکشن کمیشن کی انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے حکومت کو 27 اپریل تک فنڈز کی فراہمی یقینی بنانے کا حکم دیدیا۔
چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نےوزارت دفاع کی ملک بھر میں ایک ہی روز انتخابات کرانے سے متعلق درخواست پر سماعت کی، بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
عدالت عظمیٰ نے وزارت دفاع کی ملک بھرمیں ایک ہی روزانتخابات کرانے کی درخواست پرسماعت کے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ بادی النظرمیں درخواست گزارکےاٹھائے گئے نکات غورطلب ہیں،الیکشن اسی صورت بہترہونگےجب سیاسی جماعتوں کی مشاورت شامل ہو،سیاسی جماعتیں سینئرعہدیدارکونمائندہ مقررکرکےعدالت بھیجیں۔
تحریری حکم نامے کے مطابق وزارت دفاع کی استد عاعدالت قبول نہیں کرسکتی، بادی النظرمیں درخواست گزارکےاٹھائےگئےنکات غورطلب ہیں،درخواست گزارکےمطابق سیاسی جماعتوں میں باہمی احترام ضروری ہے،موجودہ کیس میں الیکشن کمیشن،وزارت دفاع کےتحفظات معقول نظرنہیں آتے۔
حکم نامے کے مطابق سیاسی جماعتوں کےدرمیان مذاکرات ایک اچھی تجویزہے،سیاسی جماعتوں کاالیکشن کی تاریخ پرمتفق ہوناقابل ستائش عمل ہوگا،ملک بھرمیں ایک ساتھ انتخابات کرانےکاتجربہ الگ الگ کرانےسےبہتررہاہے۔
تحریری حکمنامے کے مطابق 14مئی کوانتخابات کےعدالتی حکم پرعمل میں مزاحمت کاسامناہے،ایک ہی روزالیکشن اسی صورت بہترہونگےجب سیاسی جماعتوں کی مشاورت شامل ہو، سیاسی جماعتیں سینئرعہدیدارکونمائندہ مقررکرکےعدالت بھیجیں۔
تحریری حکم کے مطابق سیاسی مذاکرات مقررہ وقت میں الیکشن سےروگردانی کیلئےاستعمال نہیں ہونےچاہئیں،عدالت نےوقت کی قلت کومدنظررکھناہے۔
قبل ازیں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وزارت دفاع کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے انتخابات ملتوی کرنے کی استدعا پر کئی سوالات اٹھادیئے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے کہا وسائل دیں تو الیکشن کروالیں گے، اب کہتے ہیں ملک میں انارکی پھیل جائے گی، الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔ وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے، کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کرانے کی استدعا کرسکتی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے، ٹی وی پر سنا وزراء کہتے ہیں اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے، سیاسی جماعتیں ایک مؤقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔
خیال رہے کہ درخواست پر سماعت کیلئے پہلے ساڑھے 11 بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا تاہم اسے بعد میں تبدیل کرکے 2 بجے کردیا گیا تھا، عدالت عظمیٰ نے سماعت کل (جمعرات کی) ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔
وزارت دفاع کی متفرق درخواست کو رجسٹریشن نمبر 2773 الاٹ کیا گیا۔ رولز کے مطابق سماعت سے قبل رجسٹریشن نمبر الاٹ کرنا لازمی ہوتا ہے۔
وزرات دفاع کی درخواست پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا کہ مولا ہمیں صحیح فیصلوں کی ہمت دے اور نیک لوگوں میں شامل کرے، جب ہم چلے جائیں تو ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے، معاملہ بہت لمبا ہوتا جارہا ہے، حکومت نے اپنا ایگزیکٹو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں؟۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کہ وزارت خزانہ کی رپورٹ پڑھیں، عدالت کو کہا گیا تھا سپلیمنٹری گرانٹ دینے کے بعد منظوری لی جائے گی، اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا، کیا الیکشن کیلئے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟،
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں بھی حکومت کی اکثریت ہے، حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟، وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہئے، مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قرارداد کے تحت معاملہ پہلے منظوری کیلئے بھیجا۔ جسٹس منیب نے پوچھا کہ آئین حکومت کو اختیار دیتا ہے تو اسمبلی قرارداد کیسے پاس کرسکتی ہے؟۔ منصور عثمان کا کہنا تھا کہ گرانٹ کی بعد میں منظوری لینا رسکی تھا۔ جسٹس منیب نے کہا کہ کیا حکومت کی بجٹ منظوری کے وقت اکثریت نہیں ہونی تھی؟، جو بات آپ کر رہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا کبھی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری میں حکومت کو شکست ہوئی؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سال 2013ء میں کٹوتی کی تحریکیں منظور ہوچکی ہیں، موجودہ کیس میں گرانٹ اجراء سے پہلے منظوری لینے کا وقت تھا۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ وزارت خزانہ کی ٹیم نے بار بار بتایا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری بعد میں لی جاتی ہے، وزارت خزانہ نے آئین کے آرٹیکل 84 کا حوالہ دیا تھا۔ منصور عثمان نے بتایا کہ قومی اسمبلی اس معاملے میں قرارداد منظور کرچکی تھی۔
جسٹس منیب نے مزید پوچھا کہ حکومت کی گرانٹ اسمبلی سے کیسے مسترد ہو سکتی ہے؟، کیا آپ کو سپلیمنٹری بجٹ مسترد ہونے کے نتائج کا علم ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گرانٹ منظوری کا اصل اختیار پارلیمنٹ کو ہے، اسمبلی پہلے قرارداد کے ذریعے اپنی رائے دے چکی تھی۔
جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ حکومت سنجیدہ ہوتی تو کیا سپلیمنٹری گرانٹ منظور نہیں کراسکتی تھی؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ گرانٹ جاری ہونے کے بعد منظوری نہ ملے تو اخراجات غیر آئینی ہوتے۔
جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونا لازمی ہے، اٹارنی جنرل صاحب سمجھنے کی کوشش کریں معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ ہمارا نکتہ نظر سمجھ چکے ہوں گے، انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی، انتخابی اخراجات ضروری نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں، حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کیخلاف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ توقع ہے حکومت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گی، حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے مگر جواب دے، اس معاملے کے نتائج غیرمعمولی ہو سکتے ہیں، فی الحال ہم غیر معمولی نتائج پر نہیں جانا چاہتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کو عدالتی احکامات پہنچا دیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک انتخابات نہیں ہوسکتے، الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے، الیکشن کمیشن کی اس بات پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں، الیکشن کمیشن کی آبزرویشن کی بنیاد سیکیورٹی کی عدم فراہمی ہے، دہشت گردی ملک میں 1992ء سے جاری ہے، 1987ء، 1991ء، 2002ء، 2008ء، 2013ء اور 2018ء میں الیکشن ہوئے، سیکیورٹی کے مسائل ان انتخابات میں بھی تھے۔
گزشتہ روزوزارت دفاع نے سربمہردرخواست سپریم کورٹ میں جمع کرائی، جس میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرائےجائیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پہلے تمام سیکیورٹی فورسز نے ایک ساتھ فرائض انجام دیئے تھے، اب دو صوبوں میں الیکشن الگ الگ ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟، وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے، حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔
اٹارنی جنرل کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ آپریشنز میں متعین کردہ ٹارگٹ حاصل کرنے کی پوری کوشش ہے، کسی کو توقع نہیں تھی کہ اسمبلیاں پہلے تحلیل ہو جائیں گی۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی تھی، صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے قومی اسمبلی الیکشن بھی ہونے ہی تھے، آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ برطانیہ میں جنگ کے دوران بروقت انتخابات ہوئے تھے، بم دھماکوں کے دوران بھی برطانیہ میں انتخابات ہوتے تھے، عدالت کو کہاں اختیار ہے کہ الیکشن اگلے سال کرانے کا کہے؟۔ اٹارنی جنرل سیکیورٹی فورسز کا کام بیرونی خطرات سے نمٹنا ہے، 2001ء سے ہمارے سیکیورٹی ادارے سرحدوں پر مصروف ہیں۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فنڈز اور سیکیورٹی ملنے پر انتخابات کرانے کا کہا تھا۔
جسٹس اعجاز الحسن کا مزید کہنا تھا کہ فنڈز سے متعلق عدالتی حکم ایک سے دوسرے ادارے کو بھیجا جا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جو پیغام آپ دینا چاہ رہے ہیں وہ میں سمجھ گیا ہو، فوج نے انتخابات کے مقررہ وقت کے مطابق آپریشنز شروع کئے تھے۔ جسٹس منیب نے پوچھا کہ کیا آرٹیکل 245 کے تحت فوج سول حکومت کی مدد کو آتی ہے؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 245 کے تحت بنیادی حقوق معطل ہوتے ہیں۔ جسٹس منیب نے پوچھا کہ کیا 2018ء کے انتخابات میں بنیادی حقوق معطل تھے؟، وفاقی حکومت آرٹیکل 245 کا اختیار کیوں استعمال نہیں کررہی؟، کیا آئین بالادست نہیں ہے؟، افواج نے ملک کیلئے جانوں کی قربانیاں دی ہیں، افواج پاکستان کا تو سب کو شکر گزار ہونا چاہئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 27 مارچ کو عدالتی کارروائی شروع ہوئی 4 اپریل کو فیصلہ آیا، پہلے چار تین کا معاملہ تھا پھر فل کورٹ کا، بائیکاٹ ہوا لیکن کسی نے سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میری درخواست پر ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بریفنگ دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکریٹری دفاع بھی موجود تھے، ملاقات میں افسران کو بتایا تھا دوران سماعت یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا، سب کو بتایا تھا کہ فیصلہ ہوچکا ہے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں، الیکشن کمیشن نے پہلے کہا وسائل دیں تو الیکشن کروالیں گے، اب کہتے ہیں ملک میں انارکی پھیل جائے گی، الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے، وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے، کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کرانے کی استدعا کرسکتی ہے؟، وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے، ٹی وی پر سنا وزراء کہتے ہیں اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے۔
وزارت دفاع نے سپریم کورٹ سےالیکشن کا حکم واپس لینے کی استدعا کردی
باخبر ذرائع کے مطابق سربمہردرخواست سپریم کورٹ سے وزارت دفاع کی جانب سے انتخابات کا حکم واپس لینے کی استدعا کی گئی۔
وزارت دفاع نے استدعا کی ہے کہ دہشتگردوں اورشرپسندوں کےانتخابی مہم پر حملوں کا خدشہ ہے،قومی،بلوچستان اورسندھ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر انتخابات کرائےجائیں۔
یاد رہےکہ پنجاب میں انتخابات کیلئے فنڈز کی فراہمی کے معاملے پر الیکشن کمیشن، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک نے اپنی اپنی رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے فنڈز جاری نہ کرنے کی وجوہات بتائی ہیں جبکہ وزارت خزانہ کی رپورٹ میں کابینہ کے فیصلے اور پارلیمان کو معاملہ بھجوانے کی تفصیلات شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے آگاہ کیا ہے کہ انتخابات کیلئے پیسے نہیں مل سکے،رپورٹ میں سیکیورٹی پلان نہ فراہم کئے جانے کا پہلو بھی شامل کیا گیا ہے۔
دوسری جانب قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کیلئے دوسری درخواست دائر کردی گئی۔ایک ساتھ الیکشن کرانے کی درخواست محمد عارف نامی شہری نے دائر کی۔دونوں درخواستوں پر ایک ساتھ ہی سماعت ہونے کا امکان ہے۔